ایران کے ساتھ بجلی اور تیل کے خوش آئند معاہدے
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین بجلی اور پٹرولیم کے شعبوں میں تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ 100 میگاواٹ گبد‘ پولان بجلی ترسیلی منصوبہ پاک ایران تعلقات میں نئے باپ کا اضافہ ہے۔ گزشتہ روز پاکستان‘ ایران بارڈر مارکیٹ پولان اور گبد ٹرانسمیشن کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان اور ایران برادر پڑوسی ممالک ہیں‘ انکے مابین آزادانہ تجارت کو جلد حتمی شکل دے دی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام اور قیادت کو مل کر ترقی اور خوشحالی کیلئے انقلاب لانا ہوگا۔ انہوں نے اس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو دورۂ پاکستان کی بھی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے دونوں ممالک کے مابین بجلی‘ پٹرول منصوبوں میں تعاون پر مکمل آمادگی کا اظہار کیا اور کہا کہ خطے کے تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ دونوں قائدین کے مابین شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کیلئے باہمی تعاون پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔
پاکستان کو گزشتہ تین دہائیوں سے زائد کے عرصہ سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا چلا جارہاہے۔ اس میں یقیناً ہمارے حکمرانوں کی مصلحتوں اور منصوبہ سازوں کی بے تدبیریوں کا بھی عمل دخل ہے جس کے باعث ہم پانی کے وسائل ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کے ڈیمز کی تعمیر ممکن نہ بنا سکے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر سیاسی مفادات اور مصلحتوں کی نذر ہو گئی۔ اس حوالے سے ہمارے مکار دشمن بھارت کی سازشیں اپنی جگہ پر ہیں جو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہم پر آبی جارحیت کا بھی مسلسل ارتکاب کررہا ہے اور پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو متحرک کرکے اس نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی نہیں ہونے دی۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو ڈیمز ہمارے پاس موجود ہیں‘ انکی بھی نگہداشت اور صفائی نہ ہونے کے باعث انکی بجلی پیدا کرنے کی استعداد مسلسل کم ہو رہی ہے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ اس طرح ہمیں موسم گرما کے علاوہ موسم سرما میں بھی بجلی کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً پورا ملک بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی ہمہ وقت زد میں رہتا ہے۔
ایسی ہی صورتحال توانائی کے دوسرے شعبے گیس کی ہے جس کے بلوچستان میں موجود ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں اور گیس کے نئے ذخائر تلاش کرنے کا ہمارے متعلقہ اداروں کی جانب سے کبھی تردد ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ پٹرولیم مصنوعات کا ہے جو ہمیں بیرون ملک سے خریدنا پڑتی ہیں اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ ہمارے بنتے بگڑتے تعلقات ہمارے لئے پٹرولیم مصنوعات کی خریداری میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں جبکہ امریکہ نے تیل پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے اسکی خریداری اپنے سیاسی مقاصد کے ساتھ مشروط کر رکھی ہے جو ہماری سرزمین پر تیل کے ذخائر کی تلاش میں بھی سدِراہ بنتا ہے جبکہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کراتا ہے تو اس سے تیل اور گیس خریدنے والے ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ہم آج اپنی ارض وطن پر بجلی‘ تیل اور گیس کے جس سنگین بحران سے دوچار ہیں‘ اس کا پس منظر امریکی عائد کردہ پابندیاں بھی ہیں۔ اگر اس خطے کے تمام ممالک جو تیل‘ گیس کی صورت میں زیرزمین قدرتی وسائل سے مالامال ہیں اور سمندروں‘ دریائوں کی شکل میں پانی بھی اس خطے میں وافر مقدار میں موجود ہے‘ ایک بلاک کی شکل میں متحد ہو کر قدرتی وسائل کو باہمی تعاون سے خود استعمال کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرلیں تو اس خطے کے ممالک کو کسی کا بھی دستِ نگر نہ ہونا پڑے۔ مگر اپنی اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں نے خطے کے ممالک کو کبھی باہم متحد ہی نہیں ہونے دیا جس کا مسلمان دشمن طاغوتی الحادی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔
یقیناً ہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا احیاء کرکے الحادی قوتوں کے شکنجے سے باہر نکل سکتے ہیں اور اپنے وسائل خود بروئے کار لانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ اس وقت چونکہ برادر سعودی عرب اور ایران بھی عرصہ قدیم سے ایک دوسرے کے ساتھ جاری کشیدگی سے باہر نکل کر باہم دوستی کے مراحل طے کر رہے ہیں‘ سعودی عرب اور یمن میں جاری کھچائو بھی نرم پڑ رہا ہے اور پاکستان چین اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ روس اور ایران کے ساتھ بھی دوستی اور تجارتی تعلقات کے بندھنوں میں بندھ رہا ہے اس لئے خطے کے ان تمام ممالک کے سٹرٹیجک‘ دفاعی اور تجارتی مفادات یکساں ہونے سے ان ممالک کی ہی نہیں‘ پورے خطے کی ترقی‘ خوشحالی اور اسکے امن و سلامتی کی فضا سازگار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس سے بہرصورت ہمیں فائدہ اٹھانا ہے کیونکہ اس وقت عوام بجلی‘ گیس کی قلت اور انکی بتدریج بڑھتی قیمتوں سے بھی عملاً زندہ درگور ہو رہے ہیں اور انہی مسائل کے تناظر میں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے توانا ہوتے عفریت بھی ہمارے ارض وطن پر عام انسانوں کی زندگیاں اجیرن کر رہے ہیں۔
ایران کے ساتھ 2013ء میں ہمارا گیس پائپ لائن کی تنصیب کا معاہدہ طے پایا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے پاک ایران سرحد پر جا کر کیا تھا مگر ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے باعث ہم اس معاہدے پر عملدرآمد کی جرأت ہی نہ کر پائے جبکہ ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھا بھی دی تھی۔ اگر گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا تو ہمیں گیس کی قلت کے بحران سے تو نجات مل جاتی۔ اب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پاک ایران سرحد پر جا کر بجلی اور پٹرول کے مشترکہ منصوبوں کی بنیاد رکھی ہے اور پولان‘ گبد ٹرانسمیشن کا افتتاح کیا ہے تو ان معاہدوں پر عملدرآمد کیلئے اب ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اگر عرصہ دراز سے لٹکے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کو بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا جائے تو ہمیں توانائی کے بحران سے بھی مستقل نجات مل سکتی ہے اور برادر ممالک سے ہمیں بجلی‘ گیس اور پٹرول سستے نرخوں پر دستیاب ہو سکتا ہے جس سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی بتدریج کم ہو جائیگا۔ ہمیں اپنی ضرورتوں کی روشنی میں ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں اپنی قومی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔ یہی زندہ قوموں کا چلن ہوتا ہے۔