وراثتی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ
جس کیس کی ہم اِس آرٹیکل میں بات کر ر ہے ہیں اِس کیس کے حالات و واقعات کچھ اِس طرح ہیں ک فتح خان اور نور باری کی شادی ہوئی اْن کی ہاں بیٹی منیر سلطان پیدا ہوئی۔ فتح خان نے بعد ازاں نور باری کو طلاق دے دی اور دوسری شادی کر لی۔ منیر سلطان نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنا وراثتی حصہ حاصل کرنے کے لیے کیس دائر کیا کہ فتح خان نے غلط طور پر اپنی دوسری بیوی اور دو بیٹوں کے نام تین عدد انتقالات زمین کر دئیے ہیں۔خاتون کا نام نیک بخت اور بیٹوں کا نام عطا محمد اور محمد اکرم تھا۔ دعویٰ میں منیر سلطان نے اپنی چار سوتیلی بہنوں کو بھی فریق بنایا اِن سوتیلی بہنوں کے نام بھی کوئی گفٹ نہ کیا گیا تھا۔ دعویٰ ٹرائیل کورٹ یعنی سول کورٹ میں ڈسمس کردیا گیا لیکن اپیل میں ڈسٹرکٹ کورٹ میں منیر سلطان کے حق میں دعویٰ ڈگری ہوگیا۔اِسی طرح لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے بھی فیصلے کو برقرار رکھا۔ اِسکے بعد عطاء محمد نے سپریم کورٹ میں ان دونوں فیصلوں کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے۔ پٹیشنر کے کونسل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے دعویٰ درست طور پر خارج کیا تھا کیونکہ پٹیشنر نے ثابت کیا تھا کہ ہبہ اْن کے حق میں کیا گیا تھا۔ اِس پٹیشن میں گفٹ کے انتقال کی کاپیاں اور ڈیلی رجسٹر (روزنامچہ واقعاتی) کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ زمین شروع سے اْن کے قبضے میں ہے۔ اِس سے ہبہ کی آفر اور قبولیٹ کی کنفرمیشن ملتی ہے۔پٹیشنر کے کونسل کی مدد سے ہم نے حوالہ شدہ دستاویزات کا معائنہ کیا اور کیس کو سْنا۔
فتح خان کی وفات کے وقت عمر نوے سال تھی۔اور یہ کہ فتح خان نے خود رپورٹ کی کہ اْس نے زمین ہبہ کر دی ہے لیکن انتقالات میں یہ درج نہ ہے کہ کب کہاں یہ واقعہ ہوا کب اور کہاں پٹیشنر نے یہ ہبہ قبول کیا۔ ایسا کوئی بھی ڈاکومنٹ پیش نہ کیا گیا ہے کہ جس پر فتح خان کے دستخط ہوں یا اْس کا نشان انگوٹھا ہو۔ہبہ کے لازمی اجزاء بھی اْس دستاویز میں بیان نہیں کیے گئے جو کہ پٹیشنر نے جمع کروائی ہے۔ہبہ کے دو گواہان شیر محمد اور احمدخان اور محمد افضل تھے محمد افضل نے گواہی نہ دی۔ ہبہ کو ثابت کرنا ہبہ سے فائدہ اْٹھانے والوں کے اوپر ہوتا ہے۔
بخت بی بی اور محمد اکرم نے گواہی نہ دی تاہم صرف عطا محمد نے گواہی دی تھی۔لیکن اْس نے دیگر دو کی اٹارنی کے ذریعہ بھی شہادت نہ دی۔ پٹیشنر کی جانب سے یہ کہا جانا کہ زمین پر اْنکا قبضہ ہونے کا مطلب ہے کہ زمین اْن کو ہبہ کی جاچکی تھی۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے پٹیشنرز نے اپنی جینڈر اور حیثیت کا فائدہ اْٹھایا ہے۔اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دو عدالتوں کے کنکرنٹ فیصلے اِس سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ عام ہوچکا ہے کہ قانونی وارثان کو محرو م کردیا جاتا ہے اور اِس کے باوجودفیصلہ خلاف بھی ہو تو ہائر فورم سے رجوع کیا جاتا ہے۔
یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ صرف فیصلے کو چیلنج کرنے سے آپریشن معطل نہیں کیا جاسکتا۔یہ بھی ممکن ہے کہ پٹیشنر اِس انتظار میں ہو کہ جب یہ ڈگری کی عملداری داخل کریں تو یہ اْس پر اعتراضات لگائیں اور اگراعتراضات مسترد کر دئیے جائیں تو مقدمہ بازی کا ایک نیا راونڈ شروع کردیا جائے۔
سیکشن 42(1) لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے مطابق جس شخص کے حق میں زمین ٹرانسفر کی جاتی ہے تو اِس کی رپورٹ ریونیواتھارٹی کو کی جاتی ہے اِس کیس میں جن کے حق میں ہبہ ہوا اْنھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اور سب سیکشن سات 42(1) لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 یہ کہتا ہے حق تبدیل کرنے سے پہلے ان کے انتقالات کے رجسٹر میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اور اِس حق کی بابت تحریر کیا جاتا ہے جو اْسے ملا ہوتا ہے اور اس بات کی تصدیق علاقے کے دو معزز افراد کر تے ہیں جو کہ نمبردار یا ممبر ضلع کونسل یا تحصیل کونسل یا ٹاون کونسل ہوں لیکن اِس کیس میں جنہوں نے ایسا کیا ہے وہ متعلقہ افراد نہیں۔
اِس کیس کے حقائق تو یہ ہیں کہ ایک بوڑھے شخص نے اپنی پانچ بیٹیوں کو چھوڑ کر اپنی جائیداد گفٹ کردی ہے۔ اِن غیر معمولی حالات میں تو ریونیو سٹاف کو مزید ہوشیا ر ہونا چاہیے اور ہبہ کا انتقال کرنے سے پہلے ہبہ کرنے والے کی شناخت کرنی چاہیے۔ ہبہ کرنے والے کی شناختی کارڈ کی کاپی لینی چاہیے۔ ہبہ کرنے والے کے انگوٹھے کا نشان اور دستخط لینے چاہیے۔ اور اگر ہبہ کرنے والے شخص کی عمر بہت زیادہ ہو تو اْس شخص کو باور کروانا چاہیے کہ وہ یہ زمین ہبہ کر رہا ہے اور فلاں فلاں تمھاری اولاد اس وجہ سے جائیداد سے محروم ہورہی ہے۔
اِن حالات میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہبہ کرتے وقت اْن بیٹیوں کو جن کو محروم کیا جارہا ہے ‘نوٹس جاری کیے جائیں تا کہ اْن کے علم میں یہ بات آئے کہ اْن کا باپ اْن کو جائیداد سے محروم کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہا ت کی بناء پر عدالت اس پٹیشن کو مسترد کرتی ہے پٹیشنر کو چاہیے تھا کہ وہ ہبہ کو درست ثابت کرئے جو اْس نے نہیں کیا دوسری طرف کافی مواد ہے کہ یہ ہبہ بدیانتی کی بنیاد پر ہوا تھا۔اور بددیانتی کی بنیاد انتقالات کروائے گئے انتقالات نمبر 449،451،452 غیر قانونی ہیں۔ پٹیشنر کی جانب سے اور دوسرے قانونی وارثان کی جانب سے دوسرے قانونی وارثان کو اْن کے حق سے بائیس سال کے طویل عرصے سے محروم کیا ہوا ہے اِس لیے پٹیشنر کو جْرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔
منیر سلطان اپنا وراثتی حق حاصل کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئی اور اس سے استفادہ نہ کرسکی جو اْس کا حق تھا۔محکمہ ریونیو محکمہ انسانی حقوق محکمہ اوقاف پر اربوں روپے کابجٹ ہر سال خرچ ہوتا ہے لیکن یہ محکمے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے۔اِ س کیس میں پنجاب ریونیو محکمے نے غلط انتقالات کیے۔اِس معاملے کو عدالت اِس لیے ہائی لائیٹ کر رہی ہے کہ فرسٹ راونڈ یعنی سول کورٹ میں منیر سلطان اپنا کیس ہار گئی تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات بیٹیوں‘ یتیموں، بیواؤں کی جانب سے عدالتوں میں مقدمہ بازی کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اِس کیس کے آرڈر کی کاپیاں محکمہ ریونیو، محکمہ اقاف محکمہ انسانی حقوق کو بھی بھیجی جائیں۔
٭…٭…٭