مولانا امین احسن اصلاحیؒ
دینی جرائد کی حالت شروع ہی سے پتلی چلی آرہی ہے ، ایک طرف الحادی قوتیں اپنے عقائد و نظریات کے پر چار کے لئے نشرو اشاعت کا ہر ہتھیار استعمال کررہی ہیں، خود مسلمانوں کے اندر ایسے ایسے فتنوں نے جنم لیا ہے جو اسلام کی شکل مسخ کردینے کے درپے ہیں ۔ چونکہ ایسے عناصر کے سد باب اور ان کی مہلک سر گرمیوں کے ردّ میں کوئی مئوثر اور فعال قوت کام نہیں کررہی ہے اس لئے ایسے عناصر بد ستور پرورش پار ہے ہیں۔ مولانا اصلاحی آج ہمارے درمیان موجود ہیں، نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی باقی ماندہ قوتیں کب تک ان کے کمزور و ناتواں جسم کا ساتھ دیں گی ۔ دینی حلقوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ ’’ میثاق‘‘ کی موت پر چُپ سادھ کر اس خزانے کا منہہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیتے ہیں جو اسلام کے بیش قیمت جواہر سے بھراہوا ہے۔ یا اپنی دینی حمیت وغیرت سے مجبور ہو کر ’’ میثاق‘‘ کے تنِ مُردہ میں نئی زندگی کی لہر دوڑا تے ہیں۔ مجھے یہ کہہ دینے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اس وقت جن اخبارات و جرائد کو دین داری کا دعویٰ ہے ان میں سے بیسیوں پر چے اس میثاق پر قربان کئے جاسکتے ہیں جو مولانا اصلاحی کی زیر ادارت شائع ہوتا رہا ہے ۔ میثاق کے پیچھے ایک ایسی شخصیت اور کردار ہے جس کی اسلام دوستی ، جس کا علم و فضل اور جس کی صلاحیتیں عالم اسلامی سے اپنا لوہا منواچکی ہیں لیکن جب مولانا اصلاحی ہمارے درمیان سے اُٹھ جائیں گے تو پھر اپنی محرومیوں اور کم مائیگیوں کا ماتم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہماری صحافتی کشتی کے ناخدائوں کو ’’ریاست‘‘ ایسے پرچوں کی موت پر نالہ وشیون کرنے کی فرصت تو مل جاتی ہے مگر خود ان کے اپنے ملک میں ایک ایسا آفتاب غروب ہورہا ہے جس کی ایک کرن ہمیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی روشنی میں اپنی زندگی اسلامی سانچوں میں ڈھالنے میں مدد دے سکتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ارباب صحافت کو جھنجھوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ سوچنے اور کام لینے کا فرض تو ان اسلامیان وطن کے ذمے ہے جو دس برس تک مولانا اصلاحی کے قدم سے قدم ملا کرچلتے رہے، جنہوں نے مولانا سے اپنے الفاظ کی نوک پلک ٹھیک کرائی جنہوںنے مولانا کی تقریروں اور تحریروں سے اپنے ایمان مضبوط کئے ، اللہ کی راہ پر چلنا سیکھا ۔ یہ لوگ آخر سوچیں تو سہی کہ کیا ان کی یہ مجرمانہ خاموشی اور تغافل قابل محاسبہ اور لائق مواخذہ نہیں ہے ، کیا وہ جیتے جی یہ گھائو سہہ لینے کے لئے تیار ہیں کہ مولانا اصلاحی ایسا فاضل انسان مولانا فراہیؒ ایسے چوٹی کے عالم دین کی تعلیمات کو اپنے سینے میں ہی لے کر راہئی ملکِ عدم ہوجائے۔
اگر ہمارے دل کے اندر اپنے وطن میں اسلام کو متحرک اور فعال قوت کی حیثیت میں زندہ رکھنے کی تڑپ اور لگن موجود ہے اور ہم دل سے چاہتے ہیں کہ یہاں اسلام کی عملداری ہوتو ہمیں ایسے راہبروں کی قدر کرنی چاہئے اور ان کی صلاحیتوں کی نشوونما اور ان کی تعلیمات کے فروغ کے وسائل پیدا کرنے چاہئیں ، ورنہ خطرہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے والے چراغ رُخِ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہیں ہوں گے اور پھر اپنی بے بسی بے چارگی خود ہماری آنکھیں خُون کے آنسو رُلا کر علم سے بے نور ہوتی رہیں گی ‘‘۔سات روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور کے 25 دسمبر 1961ء کے شمارے میں ہم نے ’’ ماہنامہ میثاق کا نیادور‘‘ کے عنوان سے ایک شذرہ لکھا جس کا متن یہ ہے :
علمی ذوق اور دینی حِس رکھنے والوں کے لئے یہ اطلاع یقیناطمانیت بخش ہے کہ ماہنامہ’’ میثاق‘‘ لاہور عارضی تعطل کے بعد از سر نو مولانا امین احسن اصلاحی کے زیر ادارت اشاعت پذیر ہورہا ہے۔ میثاق کا آئندہ شمارہ وسط جنوری میں شائع ہوجائے گا ۔ میثاق صحیح معنوں میں ایک اصلاحی ، علمی اور دینی مجلہ ہے اور اس کی مدیر کا قلم حق رقم شروع ہی سے خدمت و اشاعت دین کے لئے وقف رہا ہے ۔ تحریر و تقریر کے میدان میں مولانا موصوف کی جو خوبی انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کردیتی ہے وہ ان کی اعتدال پسندی ہے۔ آپ دینی امور میں بلا شبہہ اسی شدت کے قائل ہیں جو ایک با غیرت اور دینی حمیت کے حامل عالمِ دین کا خاصہ ہوا کرتی ہے لیکن نصیحت و خیر خواہی کے موقع پر آپ کے زبان و قلم ایک داعی کے شایان احتیاط ملحوظ رکھنے سے کبھی نہیں چُوکتے ۔ہمارے نزدیک میثاق ایسے پاکیزہ جرائد کی توسیع اشاعت وہی اہمیت رکھتی ہے جو اہمیت کہ خود اسلام کی سر بلندی کو حاصل ہے ۔ خدا کرے کہ میثاق کا نیا دور اسے ہر لحاظ سے دو ام بخشے اور دین حق کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہو۔
…………………… (جاری)
’’میثاق‘‘ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر اسرار احمد کی ملکیت میں چلا گیا اور اُن کی زیر ادارت شائع ہونے لگا مگر رسالہ کے صفحہ اول پرزیر سرپرستی مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ بھی شائع ہوتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد مولانا کو ڈاکٹر اسرار احمدکے خیالات اور نظریات پر بھی اعتراض ہوا اور بالآخرانہیں ڈاکٹر اسرار احمد سے کہنا پڑا کہ آپ میرا نام سر پرست یا نگران کی حیثیت سے ہٹا دیں تاکہ آپ کے نظریات اور افکار کے لئے آپ خود ذمہ دارہوں اور میری مسئولیت ختم ہوجائے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے میثاق سے قطع تعلق کے بعد اپنی پُوری توجہ ’’تدبرِقرآن‘‘ کے نام سے تفسیر لکھنے پر مرکوز کردی۔1965ء میں ان کے بڑے صاحبزے ابو صالح اصلاحی جو اس وقت کے ایک ممتاز کثیر الاشاعت اخبار روز نامہ ’’مشرق‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے قاہرہ میں پی آئی اے کی افتتاحی پرواز کو حادثہ پیش آجانے سے داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔1975-76ء میں انہوں نے لاہور شہر میں رحمن پورہ کے کرایہ کے مکان کو چھوڑ کر رحمن آباد(ضلع شیخوپورہ) نام کے ایک گائوں میں رہائش اختیارکرنے کا فیصلہ کیا جہاں ان کی اہلیہ کی کچھ اراضی بھی تھی تاکہ وہ روز مرہ ملاقاتوں اور رابطہ عوام کے تقاضوں سے اپنا وقت بچا کر ساری توجہ قرآن پاک کی تفسیر لکھنے کے کام پر دے سکیں۔ تدبّر قرآن لکھنے کا سلسلہ اگر چہ ماہنامہ میثاق کے اجراء کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا اور غالباً اس کا ابتدائی حصہ ’’ میثاق‘‘ میں ہی شائع ہوا مگر بعد ازاں کتابی صُورت میں اس کی ابتدائی جلدیں شائع کرنے کا اعزاز ان کے شاگرد رشید محمد خالد مسعود مرحوم کو حاصل ہوا ۔ مولانا اصلاحی لاہور میں مختلف مقامات پر قرآن مجید کا درس بھی دیتے رہے ، سمن آباد میں مسجد خضرا کے قریب ان کے ایک مداح نے نماز مغرب کے بعد درس کا اہتمام کر رکھا تھا ، مجھے بھی کئی بار ان کے درس میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ، ایک بار میرے متعلق فرمایا’’ مجھے اس عزیز کی خاموشی بہت پسند ہے، کاش یہ خاموشی مجھے مل جائے‘‘۔
ایک مرتبہ ملاقات میں کچھ وقفہ ہوا تو مصطفی صادق صاحب نے توجہ دلائی ’’یہ میرے رفیق جمیل اطہر ہیں‘‘ ، مولانا نے کہا ’’بھئی یہ اپنا حُلیہ تبدیل کرتے رہتے ہیں‘‘۔
مولانا امین احسن اصلاحی انقلابی سوچ کے حامل سیاسی و دینی رہنما تھے ، انہوںنے اپنے صاحبزادے ابو صالح اصلاحی کی شہادت کا زخم بہت بہادری اور صبر سے برداشت کیا، ایک تعزیتی محفل میں مولانا نے کہا ‘‘ ابو صالح قلم کا بادشاہ تھا‘‘، وہ مصر میں کرنل ناصر کی حمایت کرتے رہے، پاکستان میں انہوںنے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنانے کی مخالفت کی ، وہ بھٹو کے نظریات کے بھی قریب تر رہے، ایک مرتبہ جب مصطفی صادق صاحب سعودی عرب گئے ہوئے تھے اور بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان (احمد رضا قصوری کے والد) قتل کے مقدمہ میں پھانسی دی جانے والی تھی مولانا اصلاحی نے مصطفی صادق صاحب کو رحمن آباد سے ایک پوسٹ کارڈ لکھا جس کا پہلا فقرہ کچھ یُوں تھا کہ اگر آپ بھٹو صاحب کو پھانسی دلانے سے فارغ ہوچکے ہوں تو……
مولانا امین احسن اصلاحی کی طبیعت میں غصہ اور تیزی و تندی کا عنصر بہت نمایاں رہے۔ 1963-64 ء میں ہم نے وفاق سرگودھا کا جماعت اسلامی نمبر شائع کرنے کا اعلان کیا ، نوائے وقت میں اس کا اشتہار شائع ہوا ، اس میں مضمون نگاروں کی فہرست میں ہم نے مولانا امین احسن اصلاحی کا نام بھی شامل کردیا ، مولانا نے جواب میں ایک گرما گرم خط لکھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر آپ نے جماعت والوں سے کوئی سودا کرہی لیا ہے تو مجھے اس سے معاف رکھیں۔
مولانا نے اپنی اہلیہ کی رحلت کے بعد اپنے آخری ماہ و سال اپنے منجھلے صاحبزادے ابو سعید اصلاحی کے گھر پر گزارے۔ ابو سعید اصلاحی کئی اہم مالیاتی ادارں بشمول نیشنل بنک آف پاکستان کے پریذیڈنٹ رہے۔ مولانا کی صاحبزادی اور ان کے داماد جناب محمد نعمان نے بھی مولانا کی دیکھ بھال میں سعادت مندی کا فریضہ انجام دیا ، جناب محمد نعمان ابتداء میں اسلامی جمعیت طلباء اور پھر جماعت اسلامی کے رکن رہے، بعد ازاں واپڈا میں ملازمت کرلی اور ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائرہوئے۔ مولانا کا طویل علالت کے بعد ڈیفنس لاہور میں ان کے صاحبزادے ابو سعید اصلاحی کے گھر پر انتقال ہوا اور اس طرح قرآنی علوم کا ممتاز ترین ماہر پُوری ملتِ اسلامیہ کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے پاس چلا گیا ۔