اتوار ‘ 1444ھ‘ 21 مئی 2023ء
اسرائیلی فوجی افسر نے مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کی چھینی چابی واپس کر دی
برسوں پہلے جب اسرائیل کی جارح فوج نے مغربی ممالک کی بھرپور سرپرستی میں فلسطینی علاقوں پر دھاوا بولا تو ارض فلسطین کے 7 لاکھ باسیوں کو ان کی زمینوں‘ گھروں سے بے دخل کیا۔ سینکڑوں کو قتل کیا۔ وہ دن یوم نکبہ کہلاتا ہے۔ ان علاقوں میں مشرقی بیت المقدس کا علاقہ شیخ جراحی بھی شامل تھا۔73 سال قبل ہونے والے اس جبری بے دخلی کا شکار فلسطینی آج بھی خیموں اور کیمپوں میں رہتے ہیں۔ اس دن فلسطینی متاثرین ہاتھوں میں اپنے گھروں کی چابیاں اٹھائے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ اب یہ خبر اسی حوالے سے بہت سی یادیں تازہ کر گئی۔ چلو اور نہیں تو کم از کم ایک اسرائیلی تو ایسا نکلا جس میں کم از کم تھوڑی بہت انسانیت باقی ہے۔ اس اسرائیلی فوجی افسر نے 73 برس بعد کسی فلسطینی کے گھر کی نہیں بلکہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کی چھینی گئی چابی واپس مسلم اوقاف کو کر دی۔ دعا ہے جس طرح غاصبوں کی طرف سے یہ چابی واپس ملی ہے‘ اس طرح باقی بے دخل ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کو بھی ان کے گھروں کی چابیاں واپس مل جائے اور مسئلہ فلسطین خیروخوبی سے حل ہو اور لاکھوں بے گھر فلسطینی اپنے آبائی گھروں میں جا کر آباد ہوں۔ اس مسئلہ کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اسرائیلیوں کے نسل پرستانہ پالیسی کے علاوہ امریکہ و دیگر مغربی ممالک کی بلاجواز اسرائیل کی ناروا حمایت ہے۔ اگر یہ عالمی طاقتیں ہاتھ کھینچ لیں تو اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز آسکتا ہے۔ مگر کیا کریں خود ہمارے مشرق وسطیٰ کے عرب حکمران جن کے پہلو میں المناک مسئلہ موجود ہے۔ وہ بھی اس سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔ اسرائیل سے دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں تو غیروں سے کیا گلا کیا جائے۔ اسی لیئے کہتے ہیں۔
جو درد ملا اپنوں سے ملا
غیروں سے شکایت کون کرے
٭٭……٭٭
میڈیا کے بے لگام ڈراموں سے خاندانی نظام و روایات خطرے میں
جی ہاں یہ بات عرصہ دراز سے کہی جارہی ہے مگر کیا مجال ہے جو میڈیا چینلز پر چلنے والے ڈراموں میں ذرا بھر بھی تبدیلی آئی ہو۔ خدا جانے ڈرامہ لکھنے والے اور پیش کرنے والے آنکھیں بند کئے کیا کر رہے ہیں۔ ڈرامہ لکھنے والے اگر اپنے گھریلو و خاندانی مناظر کی منظرکشی کر رہے ہیں تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ اس بارے میں بات کریں مگر یہ تو لاکھوں ناظرین دیکھ کر جس طرح متاثر ہو رہے ہیں‘ اس کا کیا کیا جائے۔ یہ تو بھارتی چینل پر چلنے والے بیہودہ ڈراموں کو بھی مات دے رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھائی‘ بھائی‘ سسر‘ بہو‘ کزنز اور دوستوں کے درمیان رشتوں کے تقدس کی دھجیاں جس طرح اڑائی جا رہی ہیں‘ وہ ناقابل برداشت ہے۔ کیا اب یہی ان کے عشق و محبت اور ناجائز تعلقات یہ رہ گئے ہیں دکھانے کے کیلئے چند فیصد گھرانوں میں ایسا ہوتا ہوگا۔ باقی گھرانوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں کسی کے اپنے گھر میں ایسا ہوا ہو اور وہ اسے ڈرامائی شکل میں پیش کر رہا ہے تو کم از کم اسے بھی باقی کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ڈرامے میں ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ کہنے پر لبرل خواتین نے طوفان اٹھا دیا تھا۔ اب مردوں کو چاہئے وہ بھی ’’انجمن تحفظ حقوق نسواں‘‘ کی طرح’’انجمن حقوق مرداں‘‘ بنا کر ایک ڈرامے میں بیوی کی طرف سے شوہر کے منہ پر تھوکنے اور اسے تھپڑ مارنے کے سین دکھانے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرائیں کیونکہ یہ مردوں کے حقوق پر براہ راست ضرب کاری ہے۔ کہیں اس ڈرامے کی بدولت کوئی سرپھری عورت یہی حرکت کرکے اپنا گھر نہ اجاڑ دے۔ معلوم نہیں ڈرامہ نویس کے گھر میں کیا ایسا ہوا تھا جو وہ دکھا رہے ہیں۔ خدا را پہلے سے کمزور ہوتے خاندان نظام میں مزید دراڑیں نہ ڈالی جائیں۔ ہر سال لاکھوں خواتین پہلے ہی طلاق کے کیس کر رہی ہیں۔ لاکھوں بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ خدارا معاشرے کو مزید تباہی کی راہ نہ دکھائیں۔
٭٭……٭٭
ڈالر کی ٹرپل سنچری‘ قیمت 301 روپے ہو گئی
افسوس اس وقت ہماری سیاست کے باغ و بہار شخصیت طاہر القادری پاکستان میں موجود نہیں۔ وہ کینیڈا کے کسی صاف و شفاف اور پرفضا علاقے میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ نہ انہیں اب کسی انقلاب کی فکر ہے نہ عوام کے مسائل کا غم کھائے جا رہا ہے اور تو اور انہیں سانحہ ماڈل ٹائون بھی بھول گیا ہے۔ بقول شاعر ’’یہ خون خاک نشیناں تھا زرق خاک ہوا‘‘ اگر مولانا طاہرالقادری ملک میں موجود ہوتے تو یقین کریں وہ ایک پرجوش اجتماع میں گرجدار لہجے میں ’’مبارک ہو‘ مبارک ہو ڈالر 3 سو روپے کا ہو گیا‘‘ کا اعلان کرکے سامعین کا لہو گرماتے مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ ڈالر نے جس تیزرفتاری سے بلندی کا سفر شروع کیا ہوا ہے‘ اسے نہ شوکت ترین روک سکے نہ اسحاق ڈار۔ دونوں منہ دیکھتے رہ گئے اور ڈالر ’’میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال‘‘ کہتے ہوئے اوپر سے اوپر اور ہمارا بے چارہ روپیہ نیچے سے نیچے زوال کی طرف جا رہا ہے۔ ابھی تک اس لاعلاج بیماری کا علاج ہمارے کسی اقتصادی ماہر نے دریافت نہیں کیا۔ سب ہاتھ اٹھائے نظر آرہے ہیں۔ ڈالر کی یہ پرواز کب تک جاری رہے گی‘ آخر کہیں نہ کہیں تو اسے روکنا ہوگا۔ ورنہ وہ ہماری ترقی کے تمام دعوئوں اور رہی سہی روپے کی ویلیو کو مزید پستیوں کی طرف دھکیلے گا اور یوں ہمیں ڈیفالٹ یعنی دیوالیہ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ مقام عبرت ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر 300 روپے کی حد بھی کراس کر گیا اور حکمران کچھ بھی نہ کر سکے۔ کہاں مر کھپ گئے ہمارے وہ معاشی جادوگر جو پل بھر میں حالات ٹھیک کرنے کے دعوے کرتے تھے۔ کیا سیاست اتنی اہم ہو گئی ہے کہ ملک کو تباہ ہوتا دیکھ کر بھی سیاسی اختلاف کی وجہ سے اصلاح اور بہتری کی کوئی راہ معاشی ماہرین نہیں بتا رہے۔
٭٭……٭٭
مستونگ میں پولیو ٹیم پر فائرنگ‘ ایک پولیس اہلکار شہید
اس وقت دنیا میں بدقسمتی سے دو ایسے ممالک رہ گئے ہیں جہاں آج بھی پولیو کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے پہلے نمبر پر تو افغانستان ہے جہاں سال رواں میں اب تک تین کیس سامنے آئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر پاکستان‘ جی ہاں ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے جہاں اب تک ایک کیس ریکارڈ ہوا ہے۔ افغانستان گزشتہ 40 سال سے بدامنی اور خلفشار کا شکار ہے۔ وہاں حالات اس سے زیادہ ابتر ہو سکتے ہیں کیونکہ دور دراز علاقوں میں اعدادوشمار اکٹھا کرنے تک اداروں کو رسائی نہیں۔ مگر پاکستان میں تو کئی دہائیوں سے پولیو کے خلاف قطرے پلانے کی مہم ہر سال کئی مرتبہ چلائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں پولیو کیس کا سامنے آنا نہایت افسوسناک بات ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اس میں ہماری سبکی ہوتی ہے مگر کیا کریں کہ ہمارے نیم خواندہ اور مکمل ناخواندہ علاقوں میں آج بھی پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف ایک منفی مہم چلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شرپسند بھی انہیں نہیں چھوڑتے۔ گزشتہ روز بلوچستان کے شہر مستونگ کے نواح میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر نامعلوم افراد نے حملہ کر دیا۔ فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا‘ تاہم پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کے باقی افراد محفوظ رہے۔ ان حالات سے اندازہ لایا جا سکتا ہے کہ پولیو ٹیم کے ارکان کس خطرے اور مشکلات میں اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینا ہوگی کہ اگر ملک کو پولیو سے پاک نہ کیا گیا تو ہم پر عالمی سفر یعنی دنیا میں کہیں آنے جانے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ بدقسمتی سے جن علاقوں میں پولیو کے وائرس کا خطرہ ہے‘ انہی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ غیرممالک میں نوکری کرنے‘ مزدوری کرنے جاتے ہیں۔