فوری ریلیف کے تقاضوں کے برعکس مہنگائی کا بلند ہوتا گراف
وزیراعظم میاں شہبازشریف نے متعلقہ انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں کمی کے ثمرات فوری طور پر عوام تک پہنچائے جائیں۔ اس سلسلہ میں وزارتِ داخلہ اور ضلعی انتظامیہ اشیائے ضرورت کے نرخوں میں کمی یقینی بنائے اور منافع خوروں کیخلاف سختی سے ایکشن لیا جائے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایران سے کم لاگت بجلی کی درآمد سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں خوشحالی آئیگی اور ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ منصوبے سے پاکستانی عازمین حج کو بہترین سہولیات میسر ہوں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تقریباً گیارہ فیصد کمی کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیاء ضرورت و خوردو نوش کی قیمتوں میں کمی یقینی بنانا ضروری ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف نے سابق سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم سے ملاقات کے موقع پر مندپشین بارڈر مارکیٹ اور گبد پولان ٹرانسمیشن لائن کے ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کو ملکی معیشت کیلئے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ان منصوبوں سے سماجی و اقتصادی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو گا۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے رکن اور ابوظہبی پورٹس کے چیئرمین شیخ احمد دلموک المکتوم سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امارات کے سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائیگا۔
یہ امر واقع ہے کہ برادر پڑوسی اور مسلم ممالک کے ساتھ اقتصادی‘ تجارتی اور سٹرٹیجکل تعلقات کو فروغ حاصل ہونے سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ اس پورے خطے کے امن و خوشحالی کیلئے گیم چینجر بن چکا ہے۔ برادر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مستحکم ہوتے تجارتی‘ اقتصادی مراسم پاکستان کے نوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں اور تجارت کیلئے پاکستانی مصنوعات کو خطے میں مستحکم منڈیاں بھی دستیاب ہو رہی ہیں۔ اب ایران سے بجلی اور تیل کی فراہمی کے طے پانے والے منصوبوں سے ملک کی معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور ایران سے کم نرخوں پر حاصل ہونیوالے تیل کی بدولت ملک میں مہنگائی کے عفریت کو بریک لگانے کا موقع بھی ملے گا۔ برادر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بلاشبہ دوررس نتائج کے حامل ہیں مگر ملک کے غریب پسماندہ‘ بے یارومددگار عوام بالخصوص اس وقت مہنگائی کے عفریتوں کے رگڑے کھاتے اور غربت و بے روزگاری کی چکی میں پستے ہوئے کسمپرسی کی جس انتہاء کو پہنچ چکے ہیں‘ اسکے تناظر میں انہیں فوری ریلیف کی ضرورت ہے جو حکومتی پالیسیوں‘ اقدامات اور اعلانات کے باوجود انہیں ملتا نظر نہیں آرہا۔ آئی ایم ایف اپنے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے ہمارے حکمرانوں سے عملاً ایڑیاں رگڑوا رہا ہے اور گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے جبکہ حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ای کو ’’نیک بچہ‘‘ بن کر دکھانے کی کوششوں میں عوام کا مہنگائی کے ہاتھوں کچومر نکال دیا گیا ہے جن میں اب تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
بے شک حکومت کی جانب سے موجودہ پندھرواڑے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 12 سے 30 روپے فی لٹر تک کی بڑی کمی کی گئی ہے مگر اسکے ثمرات عوام تک نہ پہنچ پانے کے باعث عوام کی اقتصادی مشکلات جوں کی توں برقرار ہیں اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کے باوجود ملک میں مہنگائی کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ اس حوالے سے سٹیٹ بنک کی جاری کردہ ششماہی رپورٹ حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے جس کے مطابق ملک میں مہنگائی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جس کے عوامل عالمی معاشی حالات‘ غیریقینی آئی ایم ایف پروگرام‘ ناکافی بیرونی فنانسنگ‘ سیلاب اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے بتائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زرعی پیداوار اور اشیاء سازی سکڑ کر رہ گئی ہے۔ ترسیلات زر میں کمی آئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوئے ہیں جو ہماری معیشت کے غیرمستحکم اور دیوالیہ پن کا شکار ہونے کی نشاندہی ہے۔
اسی طرح وفاقی ادارۂ شماریات بھی اپنی ہفتہ وار رپورٹوں میں حکمرانوں کو مہنگائی کے چشم کشا حالات سے آگاہ کرتا رہتا ہے جس کی گزشتہ روز کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 45 عشاریہ 727 کی بلند ترین سطح پر ہے اور گزشتہ ہفتے روزمرہ استعمال کی 23 اشیاء کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی یہ صورتحال حکمران اتحادی جماعتوں کیلئے اس حوالے سے بھی لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کہ موجودہ اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری ہونے میں دو ماہ کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے اور اگر انتخابات کو آگے لے جانے کیلئے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے معاملات جیسے حربے اختیار نہ کئے گئے تو آنیوالی سہ ماہی نئے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے کی سہہ ماہی ہو گی۔ اگر اس فضا میں حکمران اتحادی قیادتیں مہنگائی اور غیریقینی کی فضا سے مضطرب ہوئے عوام کے پاس جائیں گی تو عوام کا کیا ردعمل سامنے آئیگا‘ اتحادی قیادتوں کو اس کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے۔ سابق حکمران پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے بلیم گیم‘ افراتفری اور انتشار کی سیاست کو فروغ دیکر عوام کے ذہن جس حد تک پراگندہ کر دیئے ہیں‘ موجودہ حکمران طبقات انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل فوری طور پر حل کرکے اور انکے ریلیف کے عملی اقدامات اٹھا کر ہی انکے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ بے شک برادر پڑوسی اور مسلم ممالک کی جانب سے پاکستان کیلئے تجارت کے راستے کھولنے اور اسکی مالی معاونت سے پاکستان کی اقتصادی مشکلات میں کمی آئیگی اور عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی مگر یہ ترقی و خوشحالی کے طویل المیعاد منصوبے ہیں جبکہ عوام کو اس وقت فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کو بہرصورت عوام کے فوری ریلیف کا اہتمام کرنا ہوگا۔