امریکہ معاشی بحران میں ڈیفالٹ کے قریب
دنیا پر معاشی پابندیا ں لگا کر ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والا امریکہ آج خود شدید معاشی بحران کا شکار ہے ، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بھی امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات ہیں، جبکہ امریکہ میں شرح سود میں اضافے کی وجہ سے عالمی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے ۔
قرضوں کی مقررہ حد کا نہ بڑھنا امریکہ کے مالی بحران کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے جس سے معیشت کو نقصان پہونچنے کی صورت میں 83 لاکھ ملازمتوں کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے، وائٹ ہائوس کونسل آف اکنامک ایڈوئزرزکی رپورٹ میں بھی خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں امریکہ کی معیشت پر گہرے طویل المعیاد اثرات مرتب ہونے کا عندیہ دیا ہے ۔
امریکہ کے وزیر ِ خزانہ جینٹ ییلن نے سینٹ اور ایوان ِ نمائندگان کے ارکان کو خط کے ذریعے خبر دار کیا کہ اگر کانگریس نے قرضوں کی حد کو معطل یا اس میں اضافہ نہ کرنے کا فوری فیصلہ نہ کیا تو یکم جون تک امریکہ ڈیفالٹ کی حد تک جا سکتا ہے ، امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد 310 کھرب ڈالر سے زائد ہے جب کہ صدر جوبائیڈن اور بعض حکام قرض کی حد کو بڑھانے پر زور دے رہے ہیں ،جسے مدِ نظر رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے ری پبلکن پارٹی کے زیرِ کنٹرول ایوان زیریں میں ایک بل کی منظوری دی گئی تھی جس میں قرضوں کی حدکو بڑھا گیا، لیکن وفاقی حکومت کو اخراجات محدود کرنے کو کہا گیا تھا ۔
امریکہ کیلئے قرض کی مقررہ حد میں اضافہ انتہائی اہمیت کا حامل بنتا جا رہا ہے اگر کانگریس نے یکم جون تک قرض کی حد میں اضافہ نہ کیا تو پھر امریکہ ڈیفالٹ کر سکتا ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن نے معاشی بحران کے تناظر میں دونوں جماعتوں ری پبلکن ، ڈیمو کریٹ اور ایوان سے تعلق رکھنے والے سینٹ کے رہنمائوں سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کی جو بغیر کسی پیش رفت کے اختتام پذیر ہوئی ، خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت ملکی قرضوں کے حصول کے لئے آخری قانونی حد تک جا سکتی ہے ان عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیڈرل ٹریزری اضافی فنڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ، ایسی صورتحال میں امریکہ کا معاشی بحران اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا کہ امریکہ موجودہ قرض کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہو جائے گا اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرمنٹ یا کسی بھی قسم کے سرکاری بلوں کی ادائیگیاں بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی ۔ قرضوں کی حد میں اضافے کا تنازع امریکہ کو شدید معاشی بحران کی طرف لے جا رہا ہے ، سرِ دست امریکہ کا قومی قرضہ 31.4 کھرب ڈالر ہیں، ا مریکی صدر جو بائیڈن نے اس تنازع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ’’ اگر امریکہ نے اپنے قرضے ادا نہیں کئے تو یہ امریکی معیشت اور عوام کیلئے تباہ کن ہو گا ‘‘ امریکی بجٹ اخراجات کے معاہدے کوحتمی شکل دینے کی کوششوں کے دوران امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا کہ ’’ امریکہ دیوالیہ ہونا شروع ہو سکتا ہے ‘‘ انتہائی معنی خیز ہے ، اگر امریکہ دیوالیہ ہو تا ہے تو ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی آئے گی ، جس کیلئے امریکہ کی داخلی منڈی میں قیمتوں کا تعین رسک پریمیئم کے ذریعے دوبارہ کرنا پڑے گا ، جس سے امریکہ میں مہنگائی کا ایک طوفان اُمڈ آئے گا ۔
امریکہ کے دیوالیہ ہونے کے اسباب اس کی دنیا میں جارحانہ پالیسیاں ہیں ، اپنی جار حانہ پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ کو اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے ، امریکہ 2022 ء میں دفاعی اخراجات کے لحاظ سے دنیا میں سرِ فہرست شمار کیا جاتا ہے، جس نے دفاعی اخراجات کی مد میں 877 ارب ڈالر خرچ کئے جو کہ مجموعی طور پر عالمی دفاعی اخراجات کے لحاظ سے 39 فیصد کے برابرہیں ، یوکرین کو 19 ارب 90 کروڑ ڈالر کی دی جانے والی فوجی امداد امریکہ کے دفاع اخراجات میں اضافہ کا سبب بنی ، 2021 ء میں د فاعی اخراجات میں جن ممالک نے اضافہ کیا ان میں سرِ فہرست امریکہ ، چین، انڈیا، بر طانیہ اور روس شامل ہیں ، جنہوں نے مجموعی طور پر دنیاکے دفاعی اخراجات کا 62فیصد خرچ کیا ۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ فوجی اخراجات میں اضافہ ان ملکوں کے لئے کوئی نیک شگون نہیں جو معاشی بد حالی کا شکار ہیں ، جن میں افریقہ اور ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک شمار کئے جاتے ہیں ، ان میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل ہیں ، دفاعی اخراجات کی مد میں اضافہ ان ممالک میں غربت اور بد حالی کو دور کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کا سبب ہے ، انڈیا چین کے خطرے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دفاعی اخراجات بڑھانے پر مجبور ہے اور پاکستان انڈیا کی جارحانہ ، شدت پسندانہ اور توسیع پسندانہ خطرے کے پیشِ نظر اپنے دفاع پر خرچ کرنے کے لئے مجبور ہے، امریکہ کے ممکنہ دیوالیہ ہونے سے سرمایہ داروں میں افراتفری کا یہ عالم ہوگا کہ دنیا کی معیشتوں کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہو جائے گا کہ امریکہ کے بعد جاپان ، برطانیہ یا جرمنی کے علاوہ اور کونسا ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے ۔
دفاعی اور معاشی اخراجات کے بوجھ تلے دبی ریاست ’’ سری لنکا ‘‘ گزشتہ سال دیوالیہ ہوئی تھی اسوقت ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے ’ آئی ایم ایف نے خبر دار کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا تھا ، کچھ دیگر ممالک کو بھی سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، آئی ایم ایف کا خدشہ درست ثابت ہوا ، امریکہ معاشی بحران میں ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے ۔