• news

مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس اور بین الاقوامی برادری کی ذمہ داریاں

آج بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے سب سے بڑے شہر اور موسم گرما کے دارالحکومت سری نگر میں گروپ آف ٹونٹی یا جی 20 نامی بین الحکومتی فورم کا اجلاس ہورہا ہے۔ انیس ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل جی 20 فورم کا یہ اجلاس اس حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہ رہا ہے کہ مقبوضہ وادی پر اس کا غاصبانہ قبضہ جائز ہے اور کشمیری عوام اس قبضے کو قبول کرچکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام نے 1947ء سے لے کر اب تک ہمیشہ بھارت کے اس قبضے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو یہ باور کرایا ہے کہ بھارت کا جموں و کشمیر پر قبضہ کشمیریوں کی امنگوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اور بین الاقوامی ادارے مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہیں۔
بھارت نے 5 اگست 2019ء کو یکطرفہ اقدام کرتے ہوئے اپنے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق موجود شقوں کو ختم کردیا۔ مودی سرکار کا خیال یہ تھا کہ یوں وہ مقبوضہ وادی کو ہڑپ کر لے گی لیکن 1385 روز سے جموں و کشمیر میں لگے ہوئے کرفیو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت اس ناجائز اقدام کے خلاف کشمیری عوام کے ردعمل سے خائف ہیں ۔ جی ٹونٹی اجلاس کے موقع پر بھی اسے ڈر تھا کہ کشمیریوں کی طرف سے احتجاج کی صورت میں بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ بھارت کے غاصبانہ تسلط کو قبول نہیں کرتے، لہٰذا مقبوضہ وادی کے مختلف شہروں میں کارروائیاں کر کے لوگوں کو بدترین تشدد کرنے کے علاوہ انھیں اغوا بھی کیا جارہا ہے تاکہ مذکورہ اجلاس کے موقع پر کسی بھی قسم کا کوئی احتجاج نہ ہوسکے۔ ریاستی دہشت گردی کی انھی کارروائیوں میں سے ایک کے دوران ضلع پونچھ میں ایک کشمیری نوجوان کو شہید کر دیا جبکہ د و مختلف مقامات پر ایک خاتون سمیت دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
جی 20 اجلاس کے انعقاد کے لیے بھارت نے عملی طور پر مقبوضہ کشمیر کو ایک فوجی قلعے میں تبدیل کردیا ہے جس سے محکوم کشمیریوںکی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے ہزاروں بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ علاقے بالخصوص سری نگر میں تعینات کر رکھا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے لیے گھروں پر چھاپوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوںکا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری اور پولیس اہلکاروں نے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران 2ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا ہے۔مودی حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر متنازعہ خطے میں منعقد کیے جانے والے گروپ 20اجلاس سے مقبوضہ علاقے کے لوگ بھارتی فورسز اہلکاروں کے ہاتھوں شدید اذیت ، توہین و تذلیل کا شکا رہیں۔ جبر واستبداد کی ان کارروائیوں کا واحد مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں گروپ 20اجلاس کے غیر قانونی اقدام سے قبل حفاظتی اقدامات کے نام پر سخت پابندیوں اورمحاصرے اور تلاشی کی بلاجواز کارروائیوں نے لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔
چین اور ترکیہ نے مذکورہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے بھارت کو واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر پر اس کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کرتے، اور مقبوضہ وادی کو ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔ تاحال سعودی عرب نے بھی اجلاس میں شرکت کے لیے ہامی نہیں بھری اور مصر نے بھی ابھی تک اجلاس میں شریک ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ واضح رہے کہ مصر جی ٹونٹی فورم کا رکن تو نہیں ہے تاہم اسے مہمان کے طور پر اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی تھی جسے اسے تادمِ تحریر قبول نہیں کیا۔ اجلاس میں شرکت سے متعلق یورپی یونین اور امریکا کا فیصلہ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض اس لیے ہے کیونکہ امریکا اور یورپی ممالک ویسے تو روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف مسلسل شور مچارہے ہیں لیکن بھارت کے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بارے میں انھوں نے کم از کم مذکورہ اجلاس میں شرکت کی حد تک درست موقف اختیار نہیں کیا۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ویسے تو پاکستان اور بھارت کا باہمی تنازعہ ہے لیکن اس مسئلے کو ساری بین الاقوامی برادری کے لیے اس سبب سے تشویش اور پریشانی کا باعث ہونا چاہیے کہ مذکورہ دونوں ملک جوہری قوت کے حامل ہیں اور ان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کسی ایسے مسئلے کو جنم دینے کا امکان رکھتی ہے جو پوری دنیا کے لیے پیچیدہ اور طویل مدتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جی ٹونٹی اجلاس کے سری نگر میں انعقاد سے بھارت بین الاقوامی برادری کو جو پیغام دے رہا ہے کشمیری عوام پر غاصب سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان دنوں میں کیا جانے والا بدترین تشدد خود ہی اسے باطل قرار دے چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھی اس اجلاس کے مقبوضہ وادی میں انعقاد پر تنقید کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جسے بھارت چاہ کر بھی ہڑپ نہیں کرسکتا۔ امریکا اور یورپی ممالک سمیت تمام بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بھارت کو اس بات کا احساس دلائے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔

ای پیپر-دی نیشن