لائو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق تحریک انصاف کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں اتنی ہی سچائی ہے جتنی میاں نواز شریف کی بیماری میں ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ معاملات دونوں جانب شفاف نہیں۔ حفیظ اللہ خان نیازی منہ آئی بات منہ میں رکھنے کے عادی نہیں، انھوں نے وزیر اعظم ہائوس میں میاں شہباز شریف سے کہہ دیا تھا، ’ہمیں لوگوں آگے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ ادھر آپ باپ بیٹوں کو ’ٹیٹیوں‘ سے ہی فرصت نہیں‘۔ اس زمانے میں ان کے ملازمین کے بینک اکائونٹس لاکھوں اربوں روپوں سے بھرے پائے جاتے تھے۔ پھر یہ نقدی بیرون ملک منتقل کردی جاتی ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جس روز نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کے سلسلہ میں گرفتاری وارنٹس جاری کیے ، اسی روز شہباز شریف کو ان کے دونوں بیٹوں سمیت 16ارب روپوں کی منی لانڈرنگ کے الزام میں عدم ثبوت کی بنا پر بری بھی کیا ۔ ایک ہی روز میں ایک فریق کی بریت جو حکومت میں ہے اور دوسرے فریق کا وارنٹ گرفتاری جو حکومت میں نہیں سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں صرف حکومت میں ہوناہی بے گناہی کا ثبوت ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ رولا غولا ڈالنے والا عمران خان توشہ خانہ کے معاملات میں دوسرے سیاستدانوں سے مختلف دکھائی نہیں دیتا ۔
عمران خان القادر ٹرسٹ مقدمے میں نیب کی جانب سے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وارنٹ گرفتاری سے خاصے ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک پردہ نشین خاتون خانہ کے ورانٹ گرفتاری جاری کیے گئے ۔ وہ صرف ٹرسٹی ہیں اور کوئی تنخواہ بھی نہیں لیتیں۔ کیا القادر ٹرسٹ کا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس پیچیدہ معاملے کو سمجھنے کے لیے پیچھے جانا پڑے گا۔ ٹرسٹ ایکٹ کے مطابق ، ٹرسٹ ایک ڈھیلا ڈھالا خیراتی ادارہ ہوتا ہے جس کے اثاثوں کے مالک اس کے ٹرسٹی ہوتے ہیں۔ ٹرسٹ قائم کر کے بہت سے ٹیکسوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اوروں کے اثاثے قبول کیے جاسکتے ہیں۔ گفٹ کے لیے خونی رشتے کی پابندی ہے لیکن یہاں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں۔ ٹرسٹ کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹرسٹ کے اثاثے حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ سو اس کا عوامی ریکارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فائونڈیشن میں جانشینی نہیں ہو سکتی۔ ٹرسٹ میں ایسی بھی کوئی پابندی نہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے دینی رہنما بھی اپنے اداروں کو فائونڈیشن کی بجائے ٹرسٹ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر یورپ میں اپنے پیران کرام کے اربوں پائونڈ کے اثاثے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارا فقر بھی کتنا امیر ہو گیا ہے۔ خیر، القادر ٹرسٹ کو سمجھنے کے لیے بہت کچھ اور سمجھنا پڑے گا۔
حکومت سندھ نے 2013ء میں کراچی کے ضلع ملیر کے ساتھ ایک نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے کراچی حیدر آباد ہائی وے پر 17617 ایکڑ زمین مختص کی گئی۔ ایک ادارہ’ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘کے نام سے بن گیا۔ ملک ریاض کو اس نئے شہر کو بحریہ ٹائون بنانے کا خیال سوجھ گیا۔ ملک ریاض نے ہمارے کرپٹ نظام کو بالکل صحیح سمجھا ہے۔ اسے اپنا کام نکلوانے کا ڈھنگ خوب آتا ہے۔ ملک ریاض نے ٹھٹھہ بلوچستان کے ویرانوں میں خریدے گئے اپنے رقبے کا تبادلہ کراچی حیدر آ باد ہائی وے سے کروالیا۔ یہ بحریہ ٹائون بڑھتے بڑھتے 30ہزار ایکڑ تک پہنچ گیا۔ آصف زرداری پر یہ الزام بالکل غلط ہے کہ انھیں لاہور بحریہ ٹائون میں 12ایکڑ پر بنا بلاول ہائوس اسی صلے میں دیا گیا۔ آصف زرداری کاروباری معاملات میں بہت کائیاں ہیں اور 12 ایکڑ 17 ہزار ایکڑ کا ٹین پرسنٹ نہیں بنتا۔ اب چیف جسٹس ثاقب نثار کا کردار شروع ہوتا ہے۔ 2018ء میں یہ مقدمہ ان کی کورٹ میں تھا۔ انھوں نے الاٹمنٹ اورزمینی تبادلہ جات کوغیر قانونی قرار دیدیا۔ ان کے مطابق چونکہ بہت سی تعمیرات ہو گئی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں، خلق خدا کو بہت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، سو ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت ملک ریاض کو 460ارب روپے جرمانہ کرکے تمام معاملے کو ریگولرائز کر دیا جاتا ہے۔ جرمانہ کی اقساط میں ادائیگی کی سہولت بھی دیدی گئی۔ ملک ریاض یہ قسطیں باقاعدگی سے اداکر رہا ہے۔
ہماری دھرتی بھی کیا قسمت لے کر آئی ہے کہ ہر کسی کو یہاں سے لوٹ مار کر کے سرمایہ باہر لے جانے کی پڑی رہتی ہے۔ پھر مہذب یورپی ممالک اگر انھیں کوئی خاص ملکی مفاد کی مجبوری نہ ہو تو وہ ایسا ’کالا دھن‘ اپنے ملک میں آنے سے روکتے رہتے ہیں۔ 2019ء کے اوائل میں برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی (این سی اے) نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ملک ریاض کو شامل تفتیش کیاکہ اس نے ایک خطیر رقم برطانیہ منتقل کی تھی۔ 190ملین پائونڈ (تقریباً 60ارب روپے) دے کر بیرون عدالت مک مکا کرلیا گیا۔ 22نومبر 2019ء کو ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ نے ملک ریاض سے وصول کی ہوئی رقم کوحکومت پاکستان کی ملکیت قرار دے کر وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ 3 دسمبر 2019ء کو 21رکنی وفاقی کابینہ کا اجلاس عمران خان کی سربراہی میں ہوا۔ مشیر شہزاد اکبر نے اجلاس میںایک سیل بند لفافہ پیش کر کے کابینہ سے اسے کھولے بغیراس کی منظوری چاہی۔ صرف شیریں مزاری معترض ہوئیں کہ جب ہمیں علم ہی نہیں تو پھر اس کی منظوری کیسے دے سکتے ہیں؟ معاملے کی نزاکت اور معاہدے کے افشا کی صورت میں قومی سلامتی پر برے اثرات کے پیش نظر شیریں مزاری بھی چپ ہو گئیںاور کابینہ کو منظوری دینی پڑی۔ یہ ریکارڈ قومی راز اور حساس معاملہ قرار دیدیا گیا۔ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں ملک ریاض کے 460ارب روپے جرمانہ کے کھاتہ میں پہنچا دی گئی۔ 26 دسمبر 2019ء کو (کابینہ کے اجلاس کے تین ہفتے بعد) چیریٹی کمیشن گورنمنٹ آف پاکستان کو ’القادر ٹرسٹ‘ کی ڈیڈرجسٹریشن کے لیے جمع کرادی گئی۔ اگلے برس 22اپریل 2020ء کو رجسٹرار آفس پہنچے ایک لیٹر کے مطابق بابر اعوان اور زلفی بخاری کو ٹرسٹ سے نکال دیا گیا۔ اب عمران خان اور بشریٰ بیگم ہی بلا شرکت غیرے ٹرسٹی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد بحریہ ٹائون کی جانب سے موضع برکالہ تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں 458کنال 4مرلے 58مربع فٹ جس کی مالیت 93کروڑ ظاہر کی گئی تھی ، القادر ٹرسٹ کو منتقل کر دی گئی ۔
٭…٭…٭