چلڈرن ہسپتال ملتان اور ننھے فرشتے
کہتے ہیں کہ ہمارے عہد کے بچے چالاک ہو گئے ہیں تو درست ہی کہتے ہیں کہ بچے بہت سے مقامات پر بڑوں کو بھی مات دے جاتے ہیں۔ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں اس لیے اپنے مستقبل کی فکر اور بہتر نگہداشت ہم سب کا فرض اولین ہونا چاہیے۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کا بھی ہم سب کو بہت خیال رکھنا چاہیے۔ دیگر شہروں کی طرح ہمارے ملتان شہرمیں بھی چلڈرن ہسپتال میں بچوں کی نگہداشت کا خاصا خیال رکھا جاتا ہے اور رکھنا بھی چاہیے کہ یہ ننھے منے پھول کملانے یا مرجھانے لگیں تو ان سے وابستہ سبھی لوگ بھی پریشان ہونے لگتے ہیں۔ یوں تو ہمارے ملک میں صحت اور ہسپتالوں کے خاصے مسائل ہیں۔ مریضوں کے لیے ڈاکٹروں کی کمی، بیڈ کا نہ ملنا، ادویات کی عدم دستیابی اور ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور مختلف ٹیسٹوں کے لیے جدید مشینوں کا فراہم نہ ہونا بھی ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ ہے تاہم ملتان کا چلڈرن ہسپتال اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں کے مسیحا یہاں پر آ نے والے ننھے فرشتوں کی بہترین تیمارداری اور دیکھ بھال کے لیے شب و روز محنت کرتے اور اپنی مسیحائی کے کرشمے دکھاتے نظر آتے ہیں۔
ایسا ہی ایک نظارہ گزشتہ دنوں ہم نے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کی ان کی کینسر وارڈ کے معائنے کی دعوت اور وہاں پر زیر علاج بچوں میں انڈس ہسپتال کی طرف سے تحفوں کی تقسیم کے دوران دیکھا۔ اس موقع پر چلڈرن ہسپتال کے ڈین ڈاکٹر کاشف چشتی، ڈاکٹر وقاص عمران، مس فریال، محمد ذیشان خان، زوہیب احمد اور ہمارے کالم نگار دوست نسیم شاہد بھی ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا آنکالوجی شعبے کے ہیڈ ہیں اور ان کے کینسر وارڈ میں کینسر اور تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے داخل ہیں جن کا وہ نہایت دلجمعی اور جانفشانی سے علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ کے علاوہ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے مریض بچے بھی یہاں زیر علاج ہیں۔ اگرچہ بلڈ کینسر اور تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کی زندگی کا چراغ جلد ہی بجھ جاتا ہے لیکن مسیحا امید کا دیا کبھی نہیں بجھنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے امراض میں مبتلا بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کے علاج کے لیے پرامید رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کا کہنا ہے کہ ان کے بروقت علاج اور اللہ کے کرم سے بہت سے بچے صحت یاب ہو کر بھرپور زندگی بسر کر رہے ہیں اور زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ان بچ جانے والے بہت سے بچوں کی شادی اور بچے بھی ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر بہت سے بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہوئے میں نے بہت سے مرجھائے چہروں کو کھلتے اور ان کی غمزدہ آنکھوں میں امید کے دیے جلتے دیکھے۔ ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی وہ زندگی کے بھرپور لمحوں سے آشنا ہو کر ان سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ کراچی سے مس فریال کی لائی ہوئی میجک عینکوں سے نکلنے والی جھلملاتی روشنی ننھے فرشتوں کے چہروں کو بھی روشن کر رہی تھی اوران کے دل میں بھی امید کی کرن روشن تھی۔ صاف لگتا تھا کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اچھل کود اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہو کر اپنے بچپن کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس سارے عمل کے دوران میں نے اپنے دل میں اس کرب اور درد کے ساتھ آ نکھوں میں نمی بھی محسوس کی۔ یہ ننھے فرشتے اور ان کے والدین نجانے کب سے اس کرب میں مبتلا ہیں۔ وہ ایک عرصے سے نجانے کیسے خدشات اور وسوسوں میں مبتلا ہیں لیکن بھلا ہو ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا اور ان جیسے دوسرے ڈاکٹر مسیحاؤں کا جو ان ننھے فرشتوں کی پلکوں میں سجے ہوئے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے اپنا دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور ان کی تکلیف میں کمی اور آ رام کے لیے کوشاں ہیں۔
ایسے بچوں کو سہولیات، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے ہمارے مخیر حضرات اور سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا چاہیے۔ ان بچوں کے لیے خون کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تھیلیسیمیا، بلڈ کینسر، برین کینسر اور گردوں اور جگر کے کینسر میں مبتلا بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملتان کے چلڈرن ہسپتال کی صرف کینسر وارڈ میں اس وقت 62 سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کیمو تھراپی کا سلسلہ الگ ہے۔ ہسپتال کے ڈین کاشف چشتی کی ذاتی کوشش اور نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی دلچسپی سے 550 بیڈ کی منظوری بھی ننھے فرشتوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر بینش اور ڈاکٹر حنا بھی بچوں اور ان کے والدین کو نفسیاتی الجھنوں سے بچانے کیلئے مفید مشوروں اور ان کی دلجوئی کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ حکومت کو جہاں صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنانے، تمام شہریوں تک صحت کارڈ کی سہولتیں پہنچانے اور ادویات کا حصول آسان اور سستا بنانے کی ضرورت ہے وہاں تھیلیسیمیا اور بلڈ کینسر میں مبتلا بچوں کے لیے خصوصی پیکیج دینے کی بھی ضرورت ہے۔ سندس، الخدمت فاونڈیشن، المصطفیٰ ویلفیئر اور انڈس جیسے فلاحی اداروں کی طرح مزید ایسے اداروں اور مخیر افراد کی ضرورت ہے جن کے ذریعے ان امراض پر قابو پانے میں مدد حاصل اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔