• news

آڈیو لیکس کمشن کسی جج کیخلاف تحقیقات کررہا نہ کریگا ،جسٹس فائز : کارروائی پبلک کرنے کا اعلان 

اسلام آباد ( اعظم گِل/ خصوصی رپورٹر) آڈیو لیکس انکوائری کمشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔ کمیشن نے حکومت سے تمام آڈیو ریکارڈنگ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت تمام مواد بدھ تک فراہم کرے۔ تمام آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ بھی ذمہ دار افسر کے دستخط کے ساتھ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کمشن نے کہا کہ ٹرانسکرپٹ میں غلطی ہوئی تو متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا ہے کہ انکوائری کمشن سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے، انکوائری کمیشن کسی جج کیخلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا، کمیشن صرف حقائق کے تعین کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی آڈیو ویڈیو لیکس کمشن کا پہلا اجلاس سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 7 میں ساڑھے دس بجے شروع ہوا اور 11 بج کر 35 منٹ تک جاری رہا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان پیش ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ کمشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمشن کی تمام کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد بلڈنگ میں ہو گی‘ جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں دو بڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں، اگر درخواست آئی تو کمیشن انکوائری کے لئے لاہور بھی جا سکتا ہے۔ کمیشن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ کمشن کے لئے آج ہی ایک عدد موبائل فون اور سم فراہم کریں۔ جوڈیشل کمشن کو فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائے گا۔ کمشن بذریعہ عوام سے بھی معلومات فراہم کرنے کا کہے گا۔ معلومات فراہم کرنے والے کو شناخت ظاہر کرنا لازمی ہو گی۔ نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں۔ کمشن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جن افراد کی آڈیوز ہیں ان کا نام، ایڈریس اور فون نمبر فراہم کئے جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تمام معلومات واضح ہونی چاہئیں تاکہ کمیشن نوٹس جاری کر سکے اور حکومت نے جو وقت مقرر کیا ہے اس کے اندر انکوائری مکمل کی جا سکے۔ تمام معلومات کی 4 مصدقہ کاپیاں کمیشن کے سیکرٹری کے پاس جمع کرائیں گے۔ 3 کاپیاں چئیرمین اور کمیشن کے ممبران جبکہ چوتھی کاپی کمیشن کے سیکرٹری کے لئے ہو گی۔ ہر چیز تیار ہونی چاہئے تاکہ کارروائی کو آگے بڑھانے میں تاخیر نہ ہو۔ جسٹس فائز نے کہا سپریم جوڈیشل کمشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کمیشن کے رکن ہیں اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کے بھی رکن ہیں۔ اس انکوائری کے دوران ہم ہر شخص سے یکساں احترام سے پیش آئیں گے۔ تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں بھی عزت کی توقع کرتے ہیں۔ کمشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کو سمن جاری کر سکے لیکن کمیشن سمن نہیں صرف نوٹس جاری کرے گا۔ کوشش ہو گی کہ کسی کے سمن جاری نہ ہوں۔ حکومتی افسروں کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تاہم عوام سے معلومات فراہمی کے لئے اخبارات میں اشتہارات جاری کریں گے۔ اس اشتہار میں حکومت کا فراہم کردہ فون نمبر دیا جائے گا۔ یہ اشتہار حکومت ملک کے 3 اردو اور 3 انگلش کے اخبارات میں شائع کرائے گی۔ ہم کسی کو بھی ایسے ہی روسٹرم پر آ کر بات کرنے نہیں دیں گے۔ کمیشن کی کارروائی کو خوشگوار انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔ نوٹس کی تعمیل مناسب انداز میں ہونی چاہئے اور جو شخص نوٹس تعمیل کرانے جائے گا وہ نوٹس وصول کرنے والے کی تصویر بنائے گا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے مشاورت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہو سکتا ہے ہمیں آڈیو ویڈیو دوران کارروائی چلانی پڑیں تو اس حوالے سے تکنیکی آلات کی فراہمی اٹارنی جنرل دفتر کی ذمہ داری ہو گی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی آواز آڈیو میں موجود نہیں ہے تو اس کی تصدیق بھی کرانا ہو گی۔ کوئی گواہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس کی آواز کاپی پیسٹ کی گئی ہے۔ اس حوالے سے تکنیکی معاونت کی ضرورت ہو گی۔ میں نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق تحقیقات میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو بہت م¶ثر پایا ہے۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے متعلقہ ایجنسی ہے ہم اس سے بھی مدد لیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کارروائی کے دوران متعلقہ فرانزک ایجنسی کا ایک رکن موجود ہونا چاہئے تاکہ کہ اگر کوئی شخص انکار کرے تو فوری تصدیق کی جا سکے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کمیشن کسی کو بھی پیش ہونے پر مجبور نہیں کرے گا۔ تحریری حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھوایا کہ حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق اس عدالتی انکوائری کمیشن کا ایک سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا اور کمیشن کا سیکرٹری بھی مقرر کیا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی آڈیو میں دو لوگ کسی تیسرے شخص کے بارے میں بات کررہے ہوں تو اس تیسرے شخص کا نام، ایڈریس اور دیگر معلومات بھی فراہم کی جائیں تاکہ اسے بھی بلایا جا سکے تاکہ اس پر جرح بھی کی جا سکے۔ ہمیں حکومت کی کوئی ویب سائیٹ بھی بتائی جائے جس پر کمیشن کا حکم نامہ اپ لوڈ کیا جا سکے تاکہ غلط رپورٹنگ نہ ہو۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم حکومت کی ویب سائیٹ پر ایک الگ سے آپشن دیں گے جس پر کمیشن کا حکم اپلوڈ کر دیا جائے گا۔ کمیشن پی ڈی ایف میں اپنا حکم اٹارنی جنرل آفس کو فراہم کیا کرے جو اسی طرح ویب سائیٹ پر اپلوڈ کر دیا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ ٹھیک ہے، اس طرح عدالتی حکم میں ترمیم بھی نہیں ہو سکے گی تاہم پی ڈی ایف کو بھی دوسرے فارمیٹ میں تبدیل کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ جلد ہی پوری کریں۔ حکومت نے میری گرمیوں کی چھٹیاں خراب کر دی ہیں۔ بعد ازاں کمشن نے مزید کارروائی ہفتہ 27 مئی تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن