• news

منگل‘ 2 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 23 مئی 2023ء

بھارت کشمیریوں کو نہیں خرید سکتا
جی ہاں جی 20 کانفرنس کا سیاحت کی ترقی کے حوالے سے جو اجلاس سرینگر میں منعقد ہو رہا ہے اس سلسلے میں بھارت نے پوری کوشش کی کہ سرینگر کو دلہن کی طرح سجایا جائے۔ تباہ حال کشمیر کو اس کے اجڑے ہوئے دیار کو لیپا پوتی کر کے دنیا کے سامنے ایک نوخیز دلربا حسینہ بنا کر پیش کیا جائے۔ کانفرنس سے چند ماہ قبل سرینگر کے شیر کشمیر انٹر نیشنل کنونشن سینٹر کو جہاں اجلاس ہونا تھا کے علاوہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں سے مہمانوں نے گزرنا تھا جہاں جہاں سیر کرنے جانا تھا کروڑوں روپے خرچ کر کے آراستہ کیا گیا۔ سڑکوں کے کنارے پھولوں کی روشیں سجائی گئیں۔ فٹ پاتھوں کو چمکایا گیا گردو نواح کے مکانات کو دکانوں کو رنگ و رغن کر کے نیا بنا دیا گیا۔ 11 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سڑک ڈل جھیل کی مین بلیوارڈ کو تو دلہن کی مانگ بنا دیا گیا۔ جھیل میں نصب فواروں کو رنگ برنگی نئی لائٹنگ سے مزین کرکے جھیل میں چلنے والے شکاروں، ہاؤس بوٹس اور ڈونگوں کو لش پش کرنے ہر دل کھول کر رقم خرچ کی گئی مگر اسکے باوجود کسی کشمیری نے اس پر خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ مقبوضہ ریاست میں کسی عالمی ایونٹ کے انعقاد پر خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے جبری قبضہ کیا ہوا ہے۔ 34 برس سے جاری خونیں تحریک آزادی میں پوری وادی کا کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی شہید نہ ہوا ہو گرفتار نہ ہوا ہو۔ آج بھی ہزاروں کشمیری جیلوں میں بند ہیں سیاستدان گھروں میں نظربند ہیں۔ 72 سالوں سے کھربوں روپے خرچ کر کے بھی بھارت ان کشمیریوں کو خرید نہ سکا۔ مات نہ دے سکا۔ وہ کل بھی بھارت سے نفرت کرتے تھے۔ آج بھی بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
عمران کو کارکنوں کی نہیں اپنی بیوی کی فکر ہے۔ ایمان مزاری 
اب کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایمان مزاری بھی بہرحال بیٹی ہیں۔ انہیں بھی اپنی والدہ شریں مزاری کی فکر رہتی ہے۔ شریں مزاری بے شک دبنگ سیاسی رہنما ہیں مگر ہیں تو آخر وہ بھی انسان یہی پریشانی ایمان مزاری کو بھی ہے کہ ان کی والدہ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایڈونچر کریں۔ سڑکوں پر دھکے کھانا ، لاٹھیاں سہنا، آنسو گیس برداشت کرنے کی اب ان کی عمر نہیں ہے۔ جبھی تو گزشتہ دنوں جب ضمانت پر وہ عدالت سے باہر آئیں تو نعرے بازی سے انہیں ایمان مزاری نے روک دیا۔ اب پھر ان کی گرفتاری پر بیٹی کا چراغ پا ہونا فطری امر ہے۔ اوپر سے غصہ اس پر بھی ہے کہ انکے قائد عمران خان نے جھوٹے منہ سے بھی شریں مزاری کی خیریت دریافت نہیں کی۔ حال احوال نہ پوچھا۔ اس دکھ میں دیگر پارٹی کارکنان بھی ایمان مزاری کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ کیوں سب کو یہی گلہ ہے کہ’’باہر نکلو‘‘ کا نعرہ لگا کر خود گھروں میں دبکے رہنے والے رہنما نے کسی کی خبر تک نہ لی۔ انہیں واقعی صرف اپنی بیگم کی فکر تھی کہ ان کی ضمانت ہو اور انہیں کوئی نہ پکڑے۔ عمران خان کا یہ بیانیہ بھی عجیب ہے کہ گرفتار ہونے والے ہزاروں کارکن پی ٹی آئی کے ہیں۔ مرنے والے کارکن بھی پی ٹی آئی کے ہیں مگر جو توڑ پھوڑ پر پکڑے گئے وہ پی ٹی آئی کے نہیں۔ یعنی جن کو مدد کی ضرورت ہے انہیں بیچ منجدھار کے لاکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان بے چاروں کی مائیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر اس ناانصافی پر بددعائیں دے رہی ہیں۔ مگر پی ٹی آئی ان سے جان چھڑانے کے موڈ میں ہیں ان کیلئے وکیل تک مہیا نہیں کر رہی کہ کم از کم انکے مقدمات میں معاونت کریں ضمانتیں کرائیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے شاید اسی کا نام تحریک انصاف ہے۔ اس پر تو یہ بے چارے کارکن 
گلہ اسی کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا 
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے 
 کہہ کرخاموش ہیں۔
٭٭٭٭٭
کراچی، ایک دن میں ڈکیتی و رہزنی کی 140 نان سٹاپ وارداتیں 
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں کی تجارتی و صنعتی ترقی سے ہماری معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔ خدا غارت کرے کالعدم ایم کیو ایم لندن کے بھائی کا ٹیگ لگا کر بھتہ خوری اور لوٹ مار کا لائسنس جاری کرنیوالے بھگوڑے کا جس نے اس شہر کو لوٹ مار اور جرائم کا مرکز بنا دیا۔ لوگ کراچی کا مقابلہ نیویارک اور ممبئی سے کرنے لگے ہیں۔ سندھ والوں کی قسمت بھی عجیب ہے‘  ڈاکوئوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے اور شہروں میں چوروں اور رہزنوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ان ڈاکوئوں‘ چوروں اور رہزنوں کو بااثر خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو انکی سرپرستی کرتے ہیں۔ انہی کے دم قدم سے ان بااثر افراد کی علاقے میں دھاک بیٹھتی ہے۔ بہرحال کراچی میں تو حالت سب سے زیادہ پتلی ہے۔ 2 کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا یہ شہر اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں جرائم کی دلدل بن چکا ہے۔ مسلح افراد گلی نکڑ پر ہی نہیں بھرے بازار میں تجارتی اداروں میں مارکیٹوں میں جہاں چاہتے ہیں اسلحہ کے زور پر کارروائی کر کے رفوچکر ہو جاتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، سکیورٹی کیمرے اور نجی سکیورٹی گارڈ بھی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں ایک دن میں چوری و رہزنی کی 140 وارداتیں یہ تو وہ ہیں جو درج ہوئیں، سینکڑوں ہیں جو درج بھی نہ ہو سکیں ہونگی آخر تھانوں نے اپنا ریکارڈ بھی تو درست رکھنا ہوتا ہے۔ اگر جرائم کی دنیا کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ہمیں بے حد مسرت ہو گی کہ ہمارا پیارا رج دلارا کراچی بڑے فخر سے پہلی پانچ پوزیشنوں میں آسانی سے جگہ بناتا نظر آئیگا۔
نامناسب ٹویٹ پر معافی نامے اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی بھرمار
ضیاء الحق کے دور میں جہاں بھٹو کے جیالوں نے ان کی رہائی کے لیے کوڑے کھائے قید و بند کی اذیتیں سہیں۔ انہی دنوں پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں نے خود سوزی بھی کی اپنی جان اپنے قائد پر قربان کر دی۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے رہنما اور مالدار آسامیاں ازخود گرفتاریاں دے کر جیلوں میں بی کلاس کے مزے لیتے رہے یا گھروں میں نظربندی کی عیاشی کرتے رہے۔ اکثریت نے خاموشی پر اکتفا کیا۔ اسی دور میں سنہری پروں والے پروانوں کا تذکرہ عام ہوا کہ شمع جمہوریت پر عام پروانے یعنی کارکن تو جل مر رہے ہیں مگر سنہری پروں والا کوئی پروانہ ابھی تک جلا نہیں مرا نہیں۔ یہی حال اس وقت تحریک انصاف کے ایلیٹ کلاس والے رہنمائوں کا بھی ہے۔ اس کے سنہری پروانے بھی آہستہ آہستہ تحریک انصاف کی سیاست سے پناہ مانگتے اِدھر اْدھر کھسک رہے ہیں۔ ملک دشمنی کی روش سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ جس تیزی سے تحریک انصاف کے یہ سنہری پروانے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں اس پر بے اختیار 
کنارہ کرتے ہوئے دوست شرمسار نہیں 
وہ ابتلا ہے کہ سائے کا اعتبار نہیں 
کہنے کو جی چاہتا ہے صرف یہی نہیں جو بڑے بڑے سوشل میڈیا کے کھلاڑی خود کو ہرکولیس قرار دیتے تھے جو منہ میں آیا بولے چلے جاتے تھے اب تو ان کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے ہیں۔ کئی لوگ ازخود توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ باقی بھی مسکین صورت بنائے پھر رہے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ کی بیٹی خدیجہ شاہ جو ابھی تک گرفتاری کے خوف سے مفرور ہیں نے بھی اپنی نامناسب آڈیو پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گرفتاری دینے کو تیار ہیں۔ میں نے جذباتی ہو کر فوج کے خلاف ٹویٹ کیے تھے۔ ساتھ ہی اپنے سنہری پروں کا ذکر کرتے ہوئے موصوفہ کہہ رہی ہیں کہ میں دوہری شہریت رکھتی ہوں اور اس ملک کی متعلقہ سفارتخانہ سے بھی رابطہ کر رہی ہوں یعنی اپنے پر جلنے سے بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ ہوتا ہے عام پروانے اور سنہری پَر والے پروانے میں فرق۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن