ریاست کیخلاف جرائم کی سرکوبی کیسے ہو؟
قومی ہزیمت کا باعث بننے والے 9 مئی کے سانحہ کو تقریباً دو ہفتے گزر چکے ہیں اور ہم ابھی تک اس گومگو کا ہی شکار ہیں کہ اس سانحہ کے مجرمان کو کیفر کردار کو پہنچانے کیلئے انصاف کا کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔ ملک کی عسکری قیادت نے کورکمانڈرز کانفرنس میں عسکری اداروں کی عمارات‘ تنصیبات‘ قومی ہیروز کے مجسموں‘ یادگار شہداء اور بالخصوص جناح ہائوس (کورکمانڈر ہائوس) کو بدترین توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے کے بعد جلا کر خاکستر کرنے کے واقعات میں ملوث افراد‘ انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں کیخلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرکے انکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ اگلے روز قومی سلامتی کمیٹی اور پھر وفاقی کابینہ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ ان سانحات میں شریک افراد کی نادرا کے ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کلپس کے ذریعے شناخت بھی کرلی اور انکی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں جلائو گھیرائو‘ تشدد‘ توڑ پھوڑ کے ان واقعات میں شریک ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں پنجاب سے 3800 اور خیبر پی کے سے 809 ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔ گرفتار ہونیوالوں میں پی ٹی آئی کے متعدد قائدین اور خواتین بھی شامل ہیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے افراد کیخلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ہی مقدمات درج ہوئے ہیں مگر اب تک ان مقدمات کا چالان کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا۔
پی ٹی آئی کی طرف سے تو یقیناً یہی کوشش ہے کہ ان سنگین مقدمات پر بھی اپنی مفاداتی بلیم گیم کی سیاست کی جائے جس کیلئے خود عمران خان سب سے زیادہ متحرک ہیں اور اپنی ضمانت پر رہائی کا فائدہ بیرونی میڈیا کو انٹرویو دیکر‘ امریکی کانگرس کی خاتون رکن سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ملک اور ملک کے اداروں بالخصوص عساکر پاکستان کیخلاف اپنی ذہنی پراگندگی کا کھلم کھلا اظہار کرکے‘ سوشل میڈیا پر ٹویٹر پیغامات جاری کرکے اور اپنے پارٹی کارکنوں کو مزید مزاحمت کیلئے گائیڈ لائن دیکر اٹھا رہے ہیں۔ انہیں اور انکی اتھل پتھل سیاست کا دم بھرنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات سے بیرونی دنیا میں اس وطن عزیز اور اسکی محافظ عساکر پاکستان کا کیا تشخص اجاگر ہوا ہے اور ہماری سلامتی کے درپے بھارت کو کتنا اطمینان حاصل ہوا ہے۔ ملک کے بدخواہ یہ عناصر اب بھی اتھل پتھل کی ہی ٹھانے بیٹھے ہیں اور ہر گند عساکر پاکستان اور انکی قیادتوں پر ڈالنے میں اب بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ تو حضور! ملک اور اسکے محافظ ادارے کے بارے میں ملک کے بدتر دشمن سے بھی بدتر سوچ رکھنے والے ایسے بدبختوں کا کس قانون کے تابع علاج ہونا چاہیے۔ کیا اس پر گومگو میں پڑے رہنا اور ملک کی سلامتی سے کھیلنے والے عناصر کیلئے 9 مئی جیسی کھلی چھوٹ کی فضا برقرار رکھنا مناسب ہے۔ اب تک تو ان ملزمان کیخلاف ٹرائل کا آغاز ہو بھی جانا چاہیے تھا تاکہ ایسی گندی سوچ رکھنے والے دیگر عناصر کیلئے عبرت کا اہتمام ہو جاتا مگر ابھی تک وزیراعظم شہبازشریف صرف یہ طے کر پائے ہیں کہ عسکری تنصیبات پر حملوں کے مقدمات فوجی عدالتوں اور دوسرے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلیں گے۔ اس پر بھی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ نئی فوجی عدالتیں نہیں بنائی جائیں گی۔ حضور! جن فوجی عدالتوں کی تشکیل نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے عمل میں آئی تھی‘ وہ تو اپنی توسیعی میعاد بھی پوری ہونے کے بعد ختم ہو چکی ہیں۔ پھر نئی فوجی عدالتیں نہیں بنیں گی تو اس سے یہی مراد ہے کہ 9 مئی کے گھنائونے جرائم میں ملوث عناصر کیخلاف درج مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں سرے سے تشکیل نہیں دی جائیں گی۔
میں فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف کی عملداری کا گرویدہ تو ہرگز نہیں مگر سوال یہی ہے کہ گروہی سیاست میں تقسیم ہوئی ہماری سول عدلیہ سے فی الواقع آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف انصاف کی بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے جبکہ عدل گستری کے سربراہ اور انکے ہم خیال ججز اتھل پتھل سیاست کے قائد اور انکے ہمنوائوں کے خلاف درج مقدمات میں کھلم کھلا انصاف کے انکی جانب جھکائو کا عملی مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔ اسی بنیاد پر تو حکومت کی جانب سے عدل گستری کی اس سوچ کے نتارے کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا ہے۔
تو جناب! 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے فوری اور مثالی طور پر کیفر کردار کو پہنچانے میں کیا امر مانع ہے اور شش و پنج میں پڑے رہنے کی نوبت کیوں آئی ہے۔ سول حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ذہنوں میں فوجی عدالتوں کے بارے میں یہی شکوک و شبہات ہوتے ہیں کہ اس سے ملزمان کو اپنے دفاع کا حق دستیاب نہیں ہو پاتا مگر جن کے کھلے جرائم معاشرے کیلئے ناسور بن رہے ہوں اور ان جرائم کی بنیاد پر ملک کی سلامتی پر زد پڑتی کھلم کھلا نظر آرہی ہو تو انکی فوری سرکوبی ضروری ہوتی ہے یا مروجہ قوانین کا سہارا لے کر انہیں قانون کے شکنجے سے بچانے کے راستے نکالنے کیلئے انہیں دفاع کا حق دینا ضروری ہے۔ ریاست کیخلاف جرائم کی سزا تو مثالی ہونی چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ کیا سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں اور ایران میں ننگ وطن اور ننگ انسانیت جرائم کرنیوالوں کو فوری انصاف کے تقاضوں کے تحت مثالی سزائیں نہیں دی جاتیں۔ عمران خان تو اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی ایسے نظام انصاف کی ستائش کرتے رہے ہیں۔
اور ہمارے ہاں بھی فوجی یا غیرفوجی خصوصی عدالتوں کی تشکیل کوئی ماورائے آئین اقدام تو نہیں۔ آئین میں حکومت کو غیرمعمولی حالات میں ایمرجنسی کے نفاذ اور خصوصی عدالتوں کی تشکیل کی اجازت دی گئی ہے اور اسی آئینی تقاضے کے تحت نیشنل ایکشن پروگرام میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نکالی گئی تھی جسے پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود قبول کیا تھا۔ آپ اس کو بے شک بری مثال کے کھاتے میں ڈالیں مگر ضیاء الحق کی جرنیلی آمریت کے دوران قبیح جرائم میں ملوث عناصر کی فوری انصاف کے ذریعے ہی سرکوبی کی گئی تھی جس کے جرائم سے پاک معاشرے کیلئے حوصلہ افزاء نتائج مرتب ہوئے تھے۔ میں نے خود خصوصی فوجی عدالتوں میں زیرسماعت متعدد مقدمات کی رپورٹنگ کی ہوئی ہے۔ فاضل چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے کزن فاروق بندیال اور اسکے ساتھیوں کیخلاف شبنم‘ زمرد ڈکیتی اور ریپ کیس کی میں نے خصوصی فوجی عدالت میں ہی کوریج کی جس کے سربراہ ایک کرنل اور رکن سول مجسٹریٹ تھے۔ اس کیس میں بھی ملزمان کو اپنے دفاع کا پورا موقع ملا۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر اور ڈاکٹر خالد رانجھا اسی کیس میں فریقین کی جانب سے پیش ہوتے رہے اور انہیں انصاف کے عمل میں کسی قسم کی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اسی طرح 1983ء میں ہائی جیکنگ کیس کی سماعت بھی خصوصی فوجی عدالت میں ہوئی اور ملزمان کی پیروی ایس ایم ظفر نے کی۔ پھر ایک معصوم بچے پپو سے زیادتی اور قتل کے کیس کی بھی خصوصی فوجی عدالت میں سماعت ہوئی اور مجرمان کو کیمپ جیل کے باہر سرعام پھانسی پر لٹکایا گیا تو دوسرے جرائم پیشہ عناصر کے ہوش بھی ٹھکانے پر آگئے۔ پھر جناب! 9 مئی کے قبیح جرائم میں شریک ملزمان کی سرکوبی کیلئے گومگو کیوں؟ آپ ان کیلئے نرم سوچ رکھیں اور ایسے ہی جرائم کے بار بار اعادے کے راستے کھول دیں۔ حضور! یہ سیاست ہرگز نہیں ہے۔
٭…٭…٭