ملک کے بگڑے حالات
جوں ہی سنا کے میری عزیز سہیلی علیل ہے تو میں اس کی عیادت کے لیے گئی۔ معلوم ہوا کے وہ شدید ذہنی صدمے سے دو چار ہیں۔ پھٹی پھٹی نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔ ’کیا بات ہے؟ تم اس قدر پریشان ہو؟‘میری بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا تو ان کی بڑی بہن کمرے میں آئیں اور گویا ہوئیں۔ یہ بیچاری کیا بتائے گی۔ اس قدر صدمہ دیکھا ہے کہ اس میں بولنے کی سکت ہی نہیں رہی ہے۔ ’آخر کیا صدمہ پہنچا ہے؟ ذرا مجھے بھی بتائیے‘۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کا بچہ بال بال بچ گیا مگر یہ ابھی تک اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ’کیا ہوا تھا ان کے بیٹے کو؟‘ وہ آہ بھرتے ہوئے بولیں، کچھ دنوں کی بات ہے کہ ان کا بیٹا اپنے دوست کے پاس جا رہا تھا کہ راستے میں دو آدمیوں نے گاڑی رکوا کر کسی گھر کا پتا پوچھا۔ لڑکے نے جونہی ان کو پتا بتانے کے لیے ان کی جانب دیکھا تو اسی وقت پستول ان کی کنپٹی پر رکھ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ گاڑی جی ٹی روڈ کی طرف موڑ لو۔ان کا بیٹا اس قدر گھبرا گیا کہ کہ جلدی سے گاڑی کو جی ٹی روڈ پر ڈال دیا۔
راستے میں کہنے لگے، اگر تم نے شور مچایا تو ہم خود چلا لیں گے۔ لڑکا اس قدر گھبرا گیا کہ جلدی سے بولا، آپ پستول ہٹا لیں میں چپ چاپ گاڑی چلاتا رہوں گا۔ ’جی بے فکر رہیں‘ان کے لڑکے کا حال اس قدر برا تھا کہ موت اس کے سر پر منڈلا رہی تھی۔ اسلام آباد سے گاڑی چلی تو جہلم تک چلتی رہی ۔ ’کہاں تک جانا ہو گا‘۔ ’جہاں بھی جائیں تمھیں اس سے کیا بس تم گاڑی چلاتے رہو۔‘ وہ اس وقت اس قدر گھبرا رہا تھا کہ بمشکل گاڑی چلا رہا تھا۔ کھاریاں جب گزر گیا اور کئی چھوٹے چھوٹے سٹیشن گزرے مگر وہ مسلسل گاڑی چلاتا رہا۔ دریائے چناب جب گزرا تو وہ بولے، ’ہم چاہتے تو تجھے ختم کر سکتے تھے مگر تم خوش قسمت ہو پچھلی مرتبہ جس کی گاڑی میں بیٹھے تھے اسے ہم نے ختم کر دیا تھا۔ تھوڑی دور جہاں پر گھنا جنگل ہے۔ وہاں گاڑی روک دینا اور ہاں اگر پولیس کو بتانے کی کوشش کی تو اگلی مرتبہ کہیں نہ کہیں ہم تمھیں ڈھونڈ لیں گے اور ختم کر دیں گے،سمجھے!‘اس نے گھبراہٹ سے جنگل کے قریب گاڑی روکی اور انھیں بغیر دیکھتے ہوئے کہا،’آپ بے فکر رہیں میں پولیس کو نہیں بتائوں گا۔‘ وہ جنگل میں تیزی سے بھاگ گئے ان کے بیٹے کی جان میں جان آئی مگر اس وقت وہ دوبارہ سے گاڑی چلاتا اس کے بس میں نہیں تھا مگر نہ جانے کہاں سے ہمت پیدا کر کے وہ اسلام آبادجانے کے لیے جی ٹی روڈ پر اپنی گاڑی بھگانے لگا۔ آج کل جو حالات ہو رہے ہیں ان کے پیش نظر ماں نے جان لیا کہ ضرور کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ ساری رات تمام کنبہ فکر میں مبتلا رہا تو صبح سویر جب ان کا بیٹا گھر پہنچا تو آتے ہی بے ہوش ہو گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر ان کے ذہن پر شدید چوٹ لگی۔ بیٹے کو تو ہوش آگیا ہے مگر یہ ابھی تک اسی حالت میں مبتلا ہیں۔ صبح اخبار پڑھتے وقت دل دہل جاتاہے نہ جانے آج کس قسم کی خبر پڑھنے کو ملے۔حال ہی میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے حالات اتنے سنگین ہو گئے کہ اس کے سپورٹرز نے ملکی ادارے اور عوام کے سکوٹر اور گاڑیاں جلا دیں، توڑ پھوڑ کرنے والوں کو کچھ بھی نہ کہا گیا۔
شکر ہے سننے میں آرہا ہے کہ ان شر پسندوں کو اب سزائیں مل رہی ہیں اور جن کے سکوٹر نذر آتش ہوئے نہ جانے وہ کتنے غریب ہوں گے، کئی جانیں گئی اور کئی گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے مگر کسی نے ان لوگوں کی دلجوئی نہیں کی، بس ان لوگوں کو صرف کرسی عزیز ہے۔ نہ جانے کرسی پر دوبارہ بیٹھ کر کون سا ملک اور قوم کے لیے سوچنا ہے۔ یہ لوگ اپنے لیے پیدا ہوئے ہیں، ملک میں توڑ پھوڑ خوب ہوئی۔ پھر عمران خان کی رہائی پر زمان پارک میں بھرپور جشن منایا جا رہا ہے لیکن پھر لکھنا پڑتا ہے جو غریب لوگ مارے گئے ہیں۔ ان کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ زبانی کلامی باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ عمران خان نے کہا کہ جن فیملیز کا جانی نقصان ہوا ہے ان کے گھروں میں جا کر ان کی مدد کی جائے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہیں گے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ ان کی مدد کرنے سے کیا ان کی جانیں واپس آجائیں گی؟جو اپنے بوڑھے والدین اور بال بچے کے کفیل تھے مگر ان کی دلجوئی کرنے والا کوئی بھی نہیں لیکن ایک ذات ہے جو بھرپور حساب لے گی اور وہ اللہ کی ذات ہے۔