القادر ٹرسٹ کیس: نیب نے عمران کو باضابطہ شامل تفتیش کرلیا
اسلام آباد (نامہ نگار+ وقائع نگار) نیشنل کرائم ایجنسی کے 190 ملین پاﺅنڈ سکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو باضابطہ شاملِ تفتیش کر لیا۔ منگل کو عمران خان نیب راولپنڈی کے سامنے پیش ہوئے۔ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نیب راولپنڈی آفس کے باہر گاڑی میں موجود رہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے نیب کے 19 مئی کے نوٹس کا تحریری جواب جمع کروایا۔ نیب کے بھیجے گئے نوٹس سے واضح ہے کہ ان الزامات کی بنیاد وفاقی کابینہ کی جانب سے دسمبر2019 ءمیں رازدارانہ معاہدے کی منظوری ہے، 190 ملین پاﺅنڈ کی رقم سپریم کورٹ کے اکاﺅنٹ میں موجود ہے جس سے کسی قسم کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ میں ذاتی طور پر این سی اے اور ملک ریاض کے درمیان طے شدہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔ لہذا اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔ نیب کی جانب سے کرپشن کے الزامات من گھڑت، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں، میں نے یا میری اہلیہ نے ٹرسٹی کے طور پر کسی بھی اراضی یا دیگر ذرائع سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا۔ عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ کابینہ نے اس رازدارانہ معاہدے کی منظوری متفقہ طور پر قانون کے مطابق دی تھی۔ درخواست ہے کہ انکوائری رپورٹ کی ایک کاپی میری زمان پارک کی رہائشگاہ پر پہنچائی جائے، نیب کی جانب سے ضروری دستاویزات فراہم نہ کرنے کا الزام بھی غلط ہے، نیب کے کال اپ نوٹس کے جواب میں میری دسترس میں موجود تمام دستاویزات جمع کروائی جا چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے عمران خان سے کیس سے متعلق 20 سوالات کے جواب طلب کر لیے گئے ہیں۔ ذرئع نے بتایا ہے کہ نیب نے عمران خان سے برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ خط و کتابت کے ریکارڈ سے متعلق سوالات کیے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیب نے عمران خان سے 19 کروڑ پاﺅنڈز کے فریزنگ آرڈرز کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔ دسمبر 2019 ءمیں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کی منظوری کے لیے سمری کیوں تیار کروائی؟۔ دسمبر 2019 ءمیں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کو سرنڈر کرنے کی منظوری کیوں دی؟۔ ملزمان سے بدلے میں القادر یونیورسٹی کی زمین اور دیگر مالی فائدے کیوں لیے؟۔ سوالنامے میں مزید پوچھا گیا کہ اعلیٰ ترین عوامی عہدے پر بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کیا؟۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ملزمان سے مالی فائدے کیوں حاصل کیے؟۔ برطانیہ سے غیر قانونی رقم ملزمان کو واپس کرکے مجرمانہ عمل کیوں کیا؟۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے خط و کتابت کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کی سمری کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟۔ عمران خان کی نیب راولپنڈی کے دفتر میں پیشی کے موقع پر وہاں سکیورٹی ہائی الرٹ رہی جبکہ رینجرز کی مزید نفری بھی تعینات تھی۔ عمران خان نے پیشی کے موقع پر اپنی ممکنہ گرفتاری کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا لیکن انہیں گرفتار نہ کیا گیا۔ عمران خان کے خلاف کیسز میں نیب کی پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کی سربراہی میں 7 رکنی پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت نے 190 ملین پاو¿نڈکی غیرقانونی منتقلی کیس میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے تفتیشی افسر سے جواب طلب کرلیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران خواجہ حارث ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کس لیے آئے ہیں؟، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ بشری بی بی کی عبوری ضمانت درخواست کیلئے آیا ہوں۔ عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے پولیس کی نفری لگائی گئی ہے۔ وکیل نے کہا کہ جی عمران خان بھی پیش ہو رہے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ ملزمہ آجائے پھر باقاعدہ سماعت کرتے ہیں۔ بعدازاں بشری بی بی عمران خان کے ہمراہ عدالت پیش ہوگئے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بس حاضری ہوگئی، آپ عمران خان کے ساتھ بیٹھی رہیں۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ وارنٹ آف اریسٹ ہے؟، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ان کو طلبی کا نوٹس کیا ہے، وارنٹ گرفتاری صرف ان کے شوہر عمران خان کے تھے۔ عدالت نے پانچ لاکھ روپے مالیتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے بشری بی بی سے شورٹی بانڈ پر دستخط اور فنگر پرنٹ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 31 مئی تک کیلئے ملتوی کردی۔
عمران شامل تفتیش