علامہ اقبال کی مثنوی اسرار و رموز
علامہ اقبال کی پہلی کتاب" علم الا قتصاد "تھی جو 1903 میں شائع ہوئی- وہ 1914 تک "شکوہ اور جواب شکوہ "جیسی لازوال نظمیں لکھ کر مفکر فلاسفر اور شاعر کے طور پر معروف ہو چکے تھے- علامہ اقبال کی شہرہ آفاق کتاب "اسرار خودی" 1915 میں شائع ہوئی جس کے پس منظر کے بارے میں انہوں نے فرمایا -" میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں اقبال مثنوی لکھو عرض کیا مثنوی کا حق تو آپ ادا کر گئے فرمایا نہیں تم بھی لکھو التماس کی آپ فرماتے ہیں خودی کو مٹاؤ اور مجھ کو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خودی قائم کرنے کی چیز ہے ارشاد ہوا نہیں ہمارا مطلب بھی یہی ہے جو تم سمجھتے ہو-" علامہ اقبال نے مثنوی اسرار خودی میں اپنے اشعار میں فرمایا - " پیر روم نے میری خاک کو اکسیر بنا دیا اور میرے غبار سے کئی جلوے پیدا کر دیئے-میں موج ہوں اور میں نے رومی کے سمندر کو اپنا مسکن بنایا ہے تاکہ وہاں کے چمکدار موتی حاصل کر سکوں"- علامہ اقبال مسلمانوں کی غلامی پستی اور زوال سے بہت دلگیر اور پریشان رہتے تھے- انہوں نے مسلمانوں کو زوال سے نکالنے کے لیے اسرار خودی اور رموز بے خودی لکھیں- رموز بے خودی 1918 میں شائع ہوئی- 1923 میں اسرار خودی اور رموز بے خودی کو ایک ہی جلد میں" مثنوی اسرار و رموز 'کے نام سے شائع کیا گیا- کیمبرج یونیورسٹی کے ممتاز مفکر پروفیسر ڈاکٹر نکلسن نے 1920 میں اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کیا جس کے بعد علامہ اقبال کی شہرت یورپ اور امریکہ میں پھیل گئی- جب انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو علامہ اقبال بہت خوش ہوئے اور یہ سوچ کر روتے رہے کہ انہوں نے اپنے جن مسلمان بھائیوں کے لیے یہ کتاب لکھی ہے وہ اس پر توجہ نہیں دیتے جبکہ انگریز اس سے استفادہ کر رہے ہیں-علامہ اقبال حکیم الامت اور دانائے راز تھے - انہوں نے ملت کی امراض کی تشخیص کی اور اسرار رموز کی صورت میں نسخۂ کیمیاء بھی دیا-
اسرار خودی میں انسان کی انفرادی شخصیت کی نشوونما اور ارتقاء کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں- اقبال چاہتے ہیں انسان قطرے سے دریا اور ذرے سے صحرا بننا سیکھیں- وہ بیج کی مثال دیتے ہیں جو اپنی اندرونی طاقت کو بروئے کار لا کر تن آور درخت بن جاتا ہے اسی طرح انسان اپنی خودی کی طاقت سے انسان کامل اور مرد مومن بن سکتے ہیں- اقبال اسرار خودی میں لکھتے ہیں خودی عشق اور محبت سے مستحکم ہوتی ہے- سوال کرنے سے خودی کمزور ہو جاتی ہے-جب خودی عشق اور محبت سے مستحکم ہو جاتی ہے تو وہ نظام عالم کی ظاہری و مخفی قوتوں کو مسخر کر لیتی ہے-خودی کی تربیت کے تین مرحلے ہیں پہلا مرحلہ اطاعت دوسرا مرحلہ ضبط نفس اور تیسرا مرحلہ نیابت الہی ہے-علامہ اقبال نے اسرار خودی میں حضرت علی مرتضیٰؓ کے اسماء کے اسرار کی شرح بیان کی ہے-اسرار خودی کی ایک نظم میں اقبال لکھتے ہیں "مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلائے کلیم اللہ ہے اور اگر جہاد کا محرک ملک فتح کرنا ہو تو ایسی جنگ مذہب اسلام میں حرام ہے"- علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں ملت اسلامیہ کی حیات اتحاد اور ترقی کے اسرار بیان کیے ہیں-فرد اور ملت کے ربط کی تشریح کی ہے فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ قرار دیا ہے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اقبال نے توحید اور رسالت کو ملت مسلمہ کے بنیادی ارکان قرار دیا ہے-اقبال لکھتے ہیں نا امیدی غم اور ڈر سب برائیوں کی جڑ ہیں اور رشتہ حیات منقطع کرنے والی ہیں اور توحید ان امراض خبیثہ کا ازالہ کرتی ہے-فرد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق سے قائم ہے اور ملت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق سے زندہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شعاع سے چمک رہی ہے-ملت کا نظام آئین کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور ملت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آئین قرآن پاک ہے- ملت کا حسن سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب اختیار کرنے سے ہے-علامہ اقبال نے اپنی کتاب رموز بے خودی کا اختتام سورۂ اخلاص کی تشریح سے کیا ہے جسے وہ اپنی کتاب کا خلاصہ قرار دیتے ہیں- اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان خود اعتمادی اور خود شناسی کی طاقت سے قومی اور ملی مقاصد کی خاطر دوسروں پر غالب آنے کی کوشش کریں-
محترم میاں عبد الرشید شہید جید عالم نامور کالم نویس اور مصنف تھے وہ" نور بصیرت "کے عنوان سے چار دہائیوں تک نوائے وقت میں کالم لکھتے رہے- ان کو طالب علمی کے زمانے سے ہی علامہ اقبال سے بڑی عقیدت تھی اور علامہ کو دو خطوط بھی لکھے" اسلام اور تعمیر شخصیت" ان کی مقبول کتاب ہے- انہوں نے اسرار خودی اور رموز بے خودی کا آسان فہم ترجمہ کیا جسے انکے فرزند ارجمند محترم محمد محسن لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ نے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ شائع کیا ہے-انہوں نے محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انجینئر خواجہ وحید کی صدارت میں فکر اقبال فورم کے زیر اہتمام ہونے والی ایک فکری نشست میں اپنی منفرد کتاب" مثنوی اسرار و رموز" کا نسخہ راقم کو عطا کیا- راقم نے جب تحقیق پر مبنی کتاب" زندہ اقبال" مرتب کی تو اس وقت اسرار و رموز کا مطالعہ کیا میں پورے اعتماد سے کہ سکتا ہوں کہ محترم محمد محسن کی کتاب سلیس اردو ترجمہ بہترین کاغذ‘ طباعت اور بائیڈنگ ہر حوالے سے بہترین کتاب ہے جسے تجارت نہیں بلکہ قومی اور ملی جزبے اور اس آرزو کے ساتھ شائع کیا گیا ہے کہ نوجوان اس کتاب سے روشنی اور ہدایت حاصل کریں- یہ کتاب مکتبہ نور بصیرت لاہور ( 03334377720 ) نے شائع کی ہے- اس کتاب کے دانشور مرتب محمد محسن نے علامہ اقبال کا جامع سوانحی خاکہ اور عطیہ فیضی پروفیسر نکلسن اکبر الہہ ابادی خواجہ حسن نظامی سید سلیمان ندوی سراج الدین پال کے نام علامہ اقبال کے مثنوی اسرار و رموز کے سلسلے میں لکھے گئے خطوط کے اقتباسات شامل کیے ہیں جس سے اس کتاب کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے-کاش پاکستان کے نوجوان قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور اور نظریہ سے آگاہ ہوتے تو پاکستان ملت اسلامیہ کا مضبوط قلعہ بن چکا ہوتا- علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں مثنوی اسرار و رموز کے بارے میں تحریر کیا- " یہ کہنے میں کوئی مبالغہ یا خودستائی نہیں کہ اس رنگ کی کوئی نظم یا نثر اسلامی لٹریچر میں آج تک نہیں لکھی گئی"انتہائی دکھ اور کرب کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے منصوبہ بندی کرکے نوجوان نسل کو فکر اقبال سے روشناس نہ ہونے دیا اور آج پاکستانی قوم زوال کا شکار ہے-
٭…٭…٭