• news

ماضی کو حکومت کیخلاف استعمال نہیں کرینگے، 7رکنی بنچ بنا ہی نہیں تو 4,3کا فیصلہ کیسے ہوگیا: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پنجاب انتخابات کے خلاف الیکشن کمشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔ حکومت کی نہیں، اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں۔ بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں۔ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اس سے پہلے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل دیں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، گزشتہ روز عدالت کی جانب سے کچھ ریمارکس دئیے گئے۔ عدالت نے کہا جو نکات پہلے نے نہیں اٹھایا وہ کیوں رکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ گھبرا کیوں رہے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے، عدالت آپ کی سماعت کیلئے بیٹھی ہے، کوئی معقول نقطہ اٹھائیں، سن کر فیصلہ کریں گے، آپ نے نکات بیشک اٹھائے لیکن ان پر بحث نہیں کی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کل نظرثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی، آپ اپنے ساتھیوں سے کہیں ہمارے دروازے پر ایسی باتیں نہ کریں، ایوان میں گفتگو بھی سخت نہ کیا کریں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ساتھیوں سے کہیں اتنے بڑے ایوان میں کھڑے ہوکراتنی سخت باتیں نہ کریں،  جس ہستی کا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے، جس نے آپ کو وضاحت کرنے کا کہا اسے ہمارا بتا دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ ہستی اپنا کام کرتی ہے، ہم نے تو آپ کو دیکھ کر کھلے دل سے ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہا، کسی اور طریقے سے کہی گئی باتیں رپورٹ ایسے ہوئیں کہ ان سے تاثرغلط گیا، آپ پرسکون رہیں بیٹھ جائیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پرکرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے، اس لئے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 150 سال کی عدالتی نظیریں غیر مؤثر ہو گئی ہیں، عدالتی نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظرثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی، دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے۔ کیسے ہوسکتا سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو، آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، کیا دس سال بعد کوئی نظرثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ نظرثانی دائر کرنے کے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہئے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 70 سال میں یہ نقطہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز نظرثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں تو نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے 20 سال بعد نظرثانی دائر ہو سکتی ہے، اگر نظرثانی کی مدت والا رول لاگو ہو سکتا ہے تو دائرہ کار کیسے نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں، آپ کی نظر میں نظرثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظرثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نقطہ پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں، اس پر  بھی دلائل دیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ پہلی بار عدالت آیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایسے قانون کے حوالے بھی دئیے جائیں گے، الیکشن کمیشن نے کہا تھا سکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے، قانونی نکات پر دلائل کی بجائے بینچ پر اعتراض کیا گیا، عدالتی حکم پر ہی 9 رکنی سے 5 رکنی بینچ بنا، 7 رکنی بینچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہو گیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ عدالت دو منٹ میں فیصلہ کرسکتی ہے کہ نظرثانی خارج کی جاتی ہے، لیکن عدالت قانونی نکات پر سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے، آسانی سے کہہ سکتے ہیں آپ نے سواری مس کردی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر کو خط لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں، صدر کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی، صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا۔ زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے کہ 218/3 کے تحت مزید اختیارات دیے جائیں ۔ آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔

ای پیپر-دی نیشن