ایران سے تجارت کے معیشت پر مثبت اثرات
شاہ ایران کی ملک سے بے دخلی اور امام خمینی کے انقلاب کے بعدامریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کئے رکھیں ۔ اس سے قبل ایران امریکہ کی قربت میں رہتا تھا۔ ایران پر امریکہ کی جانب سے سخت معاشی پابندیوں کے ساتھ ساتھ عالمی طورپر سازشیں کرکے ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو وسیع کیا گیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن رہے۔ ایسا کر کے امریکہ نے خطے پر اپنا تسلط مضبوط کیا اور عالمی تجارت کو ڈالر پر منحصر کرکے اپنے ذاتی معاشی مفادات حاصل کئے گئے۔ ایران اور سعودی عرب میں طویل عرصے سے دشمنی قائم رکھی گئی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کرائی اور الحمدﷲ چین اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔ ایران اور سعودی عرب کے نہ صرف سفارتی تعلقات بحال ہوگئے بلکہ ایک دوسرے سے گرمجوشی پیدا ہوچکی ہے اور دونوں ممالک مسلم امہ کی مضبوطی اور خطے میں مستقل پائیدار امن کے قیام کے لئے ایک دوسرے سے دوستی کو مزید مضبوط کررہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان احترام اور دوستی کا رشتہ استوار ہونے کے پاکستان کی معیشت پر بہترنتائج مرتب ہورہے ہیں۔ امریکہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنے ذاتی معاشی مفادات کے حصول اور دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے مختلف ممالک کو باہم دست و گریباں رکھا جائے اور اسلحہ فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کیا جائے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان رنجشیں بھی اسی منصوبہ سازی کا حصہ تھا لیکن چین کی ثالثی نے اس سازش کوطویل عرصے بعد ناکام بنایا۔ایران نے ہمیشہ پاکستان کو وسیع تجارتی تعلقات کی پیشکش کی لیکن پاکستان عالمی طاقتوں کے اشاروں پر ایران سے اس قدر تجارت نہیں کرسکتا تھا جتنی ممکن ہے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں نیک نیتی سے مسئلہ کشمیر حل کرادیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت سے بھی دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اور مستقل قیام امن کی یقین دہانی پیدا ہوجانے کے بعد امریکی اسلحے کی فروخت میں کمی آئے گی اور یہی رقم دونوں ممالک اپنے عوام کے فلاح و بہبود پر خرچ کرسکیں گے۔ پاک بھارت دیرینہ مسئلہ کشمیر حل ہونے سے خطے میں انقلاب برپا ہوجائے گا اور امریکی ڈالر کی عالمی تجارت پر گرفت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان ہزاروں کلومیٹر طویل خشکی اور سمندری سرحدملتی ہے اور پاکستان و ایران نے ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کیا ہے اور کبھی بھی پاکستان اور ایران کے درمیان ایساتنازع پیدا نہیں ہوا جس سے وہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں۔ تجارت میں کمی عالمی طاقتوں کے دباؤ پر تھی اور اب ایران و سعودی عرب کے درمیان بہترین تعلقات کے قیام کے بعد پاکستان نے ایران سے تجارت میں زبردست اضافہ کیا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آئے گا اور ملک میں مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا۔ اسی طرح ایران پر عالمی پابندیوں کے اثرات میں کمی آئے گی اور ایران کو بھی معاشی طور پر استحکام حاصل ہوگا۔ایران نے تو ہمیشہ پاکستان کو تین ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات دینے کی پیشکش برقرار رکھی۔ اگر ہم ایران سے پیٹرولیم مصنوعات لیں تو ملک میں مہنگائی کی موجودہ شرح میں زبردست کمی آئے گی۔ گزشتہ دنوں ایرانی صدر محترم ابراہیم رئیسی نے پاکستانی وزیراعظم میاں شہباز شریف کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیاتاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے اور اسمگلنگ پر قابو پایا جاسکے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ایران سے 100میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیاجس سے سرحدی علاقوں پنجگور اور گوادر کو بجلی فراہم ہوگی۔پاکستان اور ایران کے درمیان فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کئے جائیں تو دونوں ممالک میں تجارت میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد پر درجنوں تجارتی پوائنٹس اور بارڈر مارکیٹیں پہلی ترجیح میں بننی چاہئیں جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو سہارا ملے گا اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
پاکستان‘ ایران اور ترکی کے درمیان بہترین تجارتی تعلقات کے لئے آر سی ڈی شاہراہ موجود ہے اور اس میں توسیع کرکے اور ٹرین کا منظم نظام قائم کرکے خطے میں مقامی تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ چین بھی سی پیک کو افغانستان‘ ایران اور ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس سے پاکستان ان ممالک کے درمیان ہب کا کام کرکے بہترین معاشی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ ایران سعودی دوستی کے بعد خطے میں نئی تجارتی راہیں کھلنا شروع ہوں گی۔ اسی لئے امریکہ کو یہ سب کچھ آسانی سے ہضم نہیں ہوگا لیکن پاکستان‘ ایران‘ چین‘ روس اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی مل کر اب عالمی حالات پر اپنی گرفت مضبوط بنانی ہوگی اور جنوبی ایشیاء میں مقامی ممالک اپنا تسلط قائم کرکے بیرونی مداخلت کے تمام حیلے بہانے ختم کرنے ہونگے ۔ اس طرح سے جنوبی ایشیاء دنیا بھر میں معاشی طور پر مضبوط ترین خطہ بن سکتا ہے کیونکہ یہاں معدنیات‘ وسائل‘ خوراک سمیت تمام وسائل موجود ہیں لیکن بیرونی مداخلت اور عالمی سازشوں کے باعث باہم دست و گریباں رہتے ہیں اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور اسکے حواری یہاں کے وسائل اور معدنیا ت سے فوائد حاصل کررہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اب خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے اور سازشیں کرنے والی عالمی طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کی چالوں کو مل کر ناکام بنایا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ممالک انٹیلی جنس معلومات کے بروقت تبادلے و کارروائی کیلئے منظم طریقہ کار بنائیں اور انٹیلی جنس تعاون کو وسیع کرکے جنوبی ایشیاء کے تحفظ کے لئے نیٹو طرز کا پلیٹ فارم بننا چاہئے جس کیلئے چین اور روس کو مشترکہ سربراہی دیکر اس عمل کا ٰآغاز کیا جائے۔