سپریم کورٹ کا آڈٹ
سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی کے مابین معاملات تاحال کشیدگی کا شکار ہیں اور اب انھوں نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے، جو بلحاظِ عہدہ عدالت کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے سامنے پیش ہونے اور سپریم کورٹ کا آڈٹ کرانے سے انکار کردیا ہے۔ اس سلسلے میں منگل کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے آڈٹ نہیں کرانا تو آئین پاکستان کو پھاڑ کر پھینک دیں۔ اگر بغیر آئین کے ملک کو چلانا ہے تو یہ آرڈر بھی جاری کردیں کہ کسی بھی محکمے کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پی اے سی میں پیش نہیں ہوگا۔ اجلاس میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی عدم پیشی پر اسٹیبلشمنٹ اور لاء ڈویژن سے رائے لے کر ایکشن لینے کی تجویز بھی دی گئی۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آرمی، اٹامک انرجی اور نیب کا آڈٹ ہوتا ہے، کیا سپریم کورٹ پاکستان سے باہر ہے؟ امریکا، چین، بھارت اور کینیڈا میں بھی سپریم کورٹ سمیت سب اداروں کے آڈٹ ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے لکھا گیا خط اس کمیٹی اور ایوان کی توہین کے مترادف ہے مگر ہم اس کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے ہیں اور ایک موقع مزید دیتے ہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین کا یہ سوال بالکل جائز ہے کہ اگر سپریم کورٹ آڈٹ نہیں کرائے گی تو دیگر اداروں پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ سپریم کورٹ آئین کا محافظ ادارہ ہے، اسے اپنا آڈٹ کرا کے دیگر اداروں کے لیے ایک مثال بننا اور یہ پیغام دینا چاہیے کہ آئین بالادست ہے اور ہر ادارے کو آئین کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے وہ سب کچھ کرنا ہوگا جس کا آئین اس سے تقاضا کرتا ہے۔