بی این اے کے سربراہ کی گرفتاری اور بلوچستان کی ترقی کی خوشگوار فضا
بلوچستان میں کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے گرفتار سربراہ گلزار امام شمبے کی جانب سے اپنی غلطیوں پر ندامت کرنے اور مسلح جدوجہد کا غلط راستہ اختیار کرنے پر میڈیا کے روبرو قوم سے معافی مانگنے سے ملک کے امن و سلامتی کے حوالے سے خوشگوار فضا استوار ہونے کے سازگار حالات پیدا ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ اس کالعدم تنظیم نے نواب اکبر بگتی کی فوجی اپریشن کے دوران ہلاکت کے ردعمل میں بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا جس سے بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو مزید حوصلہ ملا اور انہوں نے بلوچستان میں غیرمقامی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ اور زیارت میں قائداعظم کی ریذیڈنسی سمیت سرکاری اور نجی عمارات کی توڑ پھوڑ اور پاکستان کے قومی پرچم کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان تخریبی سرگرمیوں کیلئے بی این اے‘ بی ایل اے اور بلوچستان کی دوسری علیحدگی پسند تنظیموں کو بھارت کی سرپرستی اور فنڈنگ بھی حاصل ہونے لگی اور پھر یہ علیحدگی پسند عناصر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے امریکی کانگرس میں پاکستان کیخلاف اور اپنے حق میں قرارداد منظور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
مشرف آمریت کے دور میں بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو انکے مقامی مسائل کے معاملہ میں مطمئن کرنے اور انہیں سیاست کے قومی دھارے میں لانے کی کوششیں کرنے کے بجائے مختلف اقدامات سے انہیں مزید ناراض اور وفاق کی اکائیوں کے ساتھ تعلق کے معاملہ میں مزید بدگمان کیا گیا جس کے باعث علیحدگی پسند تحریک میں شدت پیدا ہوئی اور اس تحریک نے تشدد‘ گھیرائو جلائو اور قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کیا۔ مشرف حکومت کے خاتمہ کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے دور اقتدار میں ناراض بلوچوں کے ساتھ معاملہ فہمی کی پالیسی اختیار کی اور بلوچ قبیلے کا فرد ہونے کے ناطے صدر آصف علی زرداری نے ماضی کی زیادتیوں پر بلوچ عوام سے معافی مانگی اور وزیراعظم سید یوسف ر ضا گیلانی نے بلوچستان کا دورہ کرکے ’’آغازِ حقوق بلوچستان‘‘ کے نام پر ترقیاتی منصوبے کا اجراء کیا تاہم اس منصوبے پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہ ہونے کے باعث علیحدگی پسند عناصر کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے بلوچستان کے عوام کو بھٹکانے کا دوبارہ موقع حاصل ہو گیا۔
بلوچستان میں ناراض بلوچوں میں وفاق کے ساتھ بدگمانی اور کشیدگی کی فضا مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی برقرار رہی چنانچہ بلوچستان میں تخریب کاری کے سدباب کیلئے سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے ردعمل میں علیحدگی پسند عناصر کو ملک کی خودمختاری کیخلاف مزید سازشیں بروئے کار لانے کا موقع ملا اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کھلم کھلا اس امر کا اظہار کرنا شروع ہو گئے کہ پاکستان میں اب سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے اقدام کو بروئے کار لانا ضروری ہو گیا۔ اسی تناظر میں بھارت نے بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی کھل کر سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ اس پر پاکستان کی سول سیاسی اور عسکری قیادتوں نے باہم مل کر بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو سیاست کے قومی دھارے میں واپس لانے کی حکمت عملی طے کی جس کے تحت بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا گیا اور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر بلوچستان اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی گئی جس کے مثبت نتائج سامنے آنا بھی شروع ہو گئے اور بیشتر علیحدگی پسند عناصر ہتھیار ڈال کر قومی سیاست کے دھارے میں واپس آگئے۔ تاہم پی ٹی آئی کے دور میں بلوچستان کے جاری ترقیاتی کاموں سے بھی ہاتھ کھینچ لیا گیا اور بلوچستان بھی پی ٹی آئی کی قیادت کی بلیم گیم کی سیاست کی زد میں آگیا نتیجتاً بلوچستان میں عسکریت پسند اور علیحدگی پسند عناصر پھر سرگرم عمل ہو گئے۔
اب حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کی کوششوں کے نتیجہ میں بلوچستان دوبارہ ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہوا ہے جس میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے تاہم اس منصوبے کو مکمل طور پر اپریشنل کرنے کیلئے بلوچستان اور پورے خطے میں امن و سلامتی کی سازگار فضا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائیگا تو وہ زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس منصوبے کو اپریشنل کرنے کی جانب پیشرفت کرینگے جس کی آج پاکستان کو ضرورت بھی ہے۔ اس تناظر میں بلوچستان کی عسکریت پسند اور علیحدگی پسند تنظیم بی این اے کے سربراہ کا ایک منظم فوجی اپریشن کے دوران گرفتار ہونا اور پھر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی غلطی کا اعتراف کرنا ملک کے امن و استحکام کیلئے بادی النظر میںٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے اسی تناظر میں توقع ظاہر کی ہے کہ ملک اب خوشحالی اور امن کی جانب گامزن ہو گیا ہے۔ بلوچستان کی دوسری سیاسی قیادتوں کی جانب سے بھی بی این اے کے سربراہ کی گرفتاری اور اسکے قوم سے معافی مانگنے کے اقدام کو صوبے میں امن اور ترقی کی نئی کرن سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ترقیاتی منصوبوں کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ملک اور بالخصوص بلوچستان میں امن کی بحالی کیلئے سکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کو قابل تحسین قرار دیا اور امام شمبے کے پکڑے جانے پر اہل پاکستان کو مبارکباد پیش کی جبکہ انہوں نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا ٹویٹر پیغام بھی جاری کیا۔ گلزار امام شمبے نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس مثبت سوچ کا اظہار کیا کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی‘ سیاسی طریقے سے ہی ممکن ہے۔ اب ملک کی قومی سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ قوم کو انکے حقوق اور محرمیوں کے حوالے سے مطمئن کریں اور کسی ریاستی‘ انتظامی اقدام سے بلوچ قوم میں کسی قسم کی تقسیم اور بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور اسکی سلامتی کے تحفظ کیلئے بلوچ قوم نے بھی بلاشبہ ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں جس کا قومی سطح پر اعتراف کرنا ضروری ہے۔