کس بازار سے لائوں یہ جنس گراں مایہ؟؟
آرمی آڈیٹوریم کی اگلی چند قطاروں میں سے ایک پر میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی تھی، مجھے اپنے چینل کی طرف سے اس اہم دن کے پروگرام کی کوریج کے لئے بھیجا گیا تھا- میری شادی کو سات برس ہو چکے ہیں اور اللہ تعالی نے مجھے ایک بیٹے کے نقصان کے بعد دو صحت مند بیٹوں سے نواز رکھا ہے۔پیدائش کے چند منٹ کے بعد ہی میرے پہلوٹھی کے بیٹے نے گنتی کی سانسیں لے کر جان دے دی تو میں صدمے کے کوہ گراں تلے دب گئی، جلد ہی اللہ نے مجھے اگلے تین برسوں میں دو بیٹوں سے نواز دیا۔ اب وہ دونوں سکول جاتے ہیں اور میں اپنے ملازمت کے شوق کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔اس روز بھی ایسا ہی دن تھا جب مجھے طویل وقت کے لئے بچوں کو اپنی اماں کے ہاں چھوڑنا پڑا تھا۔
اسد....میرے شوہر، ایسے مواقع پر بہت تنگ پڑتے تھے مگر مجبوری کہ انہیں میرے ساتھ آنا پڑتا تھا کہ واپسی پر بسا اوقات اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ گھر اکیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔شروع سے ہی پروگرام کا رنگ ایسا جما کہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔پروگرام اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا تھا جب اعلان ہوا، تن تنہا....ایک اہم اور مشکل ترین محاذ پر دشمن کو تین گھنٹے تک فائرنگ کے تبادلے میں مصروف رکھا، دشمن کو یہی محسوس ہو رہا تھا کہ مقابلے پر کم از کم ان کے برابر طاقت کی کمپنی ہو گی۔اس وقت تک جب تک کیپٹن بلال کے پاس آخری گولی تک ختم نہ ہو گئی۔اس کے بعد وہ اپنے پوشیدہ ٹھکانے سے دوبدو لڑائی کے لئے نکلے....دشمن کے ایک مارٹر گولے کو سینے پر سہا، کیپٹن بلال علی شہید!!! آڈیٹوریم کی بڑی سکرین پر ایک سمارٹ چہرہ ابھرا، تازہ تازہ شیو کرنے سے ہلکی ہلکی نیلاہٹ لئے ہوئے چہرہ۔ یہ کیپٹن بلال کی بعد از شہادت کی تصویر ہے.... کمپیئر کی آواز ابھری، یہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر اس وقت بھی تھی جب دھرتی ماں کے سینے میں اس کے لہو کا آخری قطرہ بھی اتر چکا تھا۔
میرے سینے میں دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی.... کس ماں کا لال تھا، اس کی ماں کا کیا حا ل ہو گا؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
اب میں سٹیج پر اس مادر وطن کے عظیم رکھوالے کی عظیم ماں کو بلاتی ہوں .... انائونسمنٹ ہوتے ہی بیک گرائونڈ میں موسیقی ابھری، ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے.... ہال میں موجود فوج کے اعلی ترین عہدے دار اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور ان کی اہلیہ ان کی تقلید میں کھڑی ہوئیں تو سب لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور تالیوں کی گونج تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ہم بھی کھڑے تھے، ہمارے سامنے لمبے لوگ کھڑے تھے اس لئے منظر واضع نہ تھا، فقط روشنی نظر آ رہی تھی، جلد ہی سب لوگ بیٹھ گئے اور پھر میں نے دیکھا کہ سٹیج کی ایک طرف سے سیڑھیوںپر سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے....وہ کیا تھی، کوئی عورت، فرشتہ یا حور....چہرے پر اتنا نور کہ نظر ہی نہ ٹھہرتی تھی....سر تا پا نور کا ہالہ تھا، سفید دوپٹہ، سفید بال، سفید لباس اور چہرے پر سوگواری کے ساتھ ایسا نور کہ میں نے اپنی عمر میں ایسا چہرہ نہ دیکھا تھا۔جس شعبے سے میرا تعلق ہے وہاں بھی ہر روز ہر طرح کے چہروں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان میں سے بہت سے چہروں پر میک اپ کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں، پھر بھی ان میں سے کسی میں ایسی خوبصورتی نہیں آتی۔
بلال علی میرا اکلوتا لال آپ سب کا لال، دھرتی ماں کا لال، جسے دھرتی ماں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے، وہ یہاں بھی موجود ہے، ہم سب کے درمیان، ہم سب کو دیکھ کر مسکرا رہا ہو گا، بالکل اسی طرح مڑ کر انہوں نے سکرین پر نظر آنے والے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔ ہال میں موجود ہر آنکھ اشکبار تھی۔ میں بیس سال کی عمر میں بلال علی کی ماں بنی بائیس برس کی عمر میں اسکے شہید باپ کی بیوہ اور چند دن قبل پینتالیس برس کی عمر میں ایک شہید کی ماں! سر کے چاندی جیسے سفید بال دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کی عمر زیادہ ہو گی مگر چہرے سے عمر کا اندازہ نہ ہوتا تھا۔اس نے زندگی میں کبھی مجھے سفید لباس نہ پہننے دیا کہ میں خود پر رنگ حرام نہ کر لوں ، اپنی مرضی سے مجھے پیارے پیارے رنگوں کے ملبوسات زبردستی پسند کر کے خریدواتا، کیا آپ یقین کریں گے کہ بلال علی کی شہادت کی خبر سن کراس کے شہید چہرے کو دیکھنے کے وقفے کی رات میں میرے سر کے سب بال سفید ہو گئے تھے تب میں نے پہلی بار مکمل سفید لباس پہنا اور اب رنگ پہننے کو دل نہیں چاہتا ہلکی سی سسکی کی آواز مائیک میں سے ابھر کر آڈیٹوریم میں بیٹھے ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی۔
بلال صرف میرا نہیں آپ سب کا بیٹا تھا اور ہے، اس کا عزم یہی تھا کہ اس مٹی کو دشمن کے ناپاک قدم اس کی زندگی میں نہیں روند سکتے اور اس نے اپنا عزم پورا کیا۔کیا نا؟؟؟ سوال تھا یا نوحہ، جو ان کے سینے کی گہرائی سے نکلا اور ہم سب کے سینوں میں تیر کی طرح ترازو ہو گیا۔ میں نے اپنی ساری زندگی اس بات میں صرف کر دی کہ بلال کو ایک اچھا انسان بنائوں ، اس کے دل میں مادر وطن کی محبت لہو کی طرح دوڑتی تھی کیونکہ میں نے اسے بتایا تھا کہ جو شخص اپنی ماں سے محبت نہیں کرتا، وہ کسی سے محبت نہیں کر سکتامیں نے اسے بتایا کہ سب سے پہلی ماں مادر وطن ہوتی ہے ۔ اس سے محبت میں ہماری بقا ہے!
تالیوں کی گونج دیر تک جاری رہی
وہ ہمیشہ کہتا تھا، ماں میرے سر پر سہرا سجانے کے خواب نہ دیکھا کریں میرے سر پر شہادت کا تاج سجے گا، اور اس نے یہ تاج اپنے سر پر سجا لیا ہے گہری سانس لینے کیلئے چند لمحوں کا توقف ہوا۔حاضرین ہمہ تن گوش تھیاس عظیم ماں کے دل کا حال سننے کو بے تاب، شاید وہ یہ سننا چاہتے تھے کہ ماں کے لبوں سے یہ سننے کو ملے گا کہ بیٹے کی جدائی میں ماں کے دل کا کیا حال تھا۔شاید سب سوچ رہے تھے کہ ایک ماں کے دل سے یہ سننے کو ملے گا کہ کاش وہ اپنے بیٹے کو فوج میں نہ جانے دیتی۔
آپ کے شوہر شہیدہوئے۔ وہ بھی کیا فوج میں تھے؟ کمپیئر نے لوگوں کے اذہان کو زبان دے دی، اگر وہ فوج میں تھے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، پھر بھی آپ نے بلال علی کو بچپن سے مادر وطن سے محبت اور اس کی حفاظت کا درس سکھایاکبھی سوچا کہ کہیں اکلوتے لال کی جدائی بھی نہ برداشت کرنی پڑے، کبھی اشارہ ہوا کہ بیٹے کی جدائی بھی برداشت کرنا پڑے گی؟
اللہ کا بڑا کرم ہیاس نے مجھے ایک شہید کی بیوہ بنایاا ور ایک شہید کی ماںیوں تو اس ملک کا ہر محافظ ہم سب کا بیٹا ہے بلال علی ، میں سمجھتی ہوں کہ اسی طرح آپ سب کا بھی بیٹا ہے، اس کے سارے دوست اور ساتھی میرے بیٹے ہیں، مجھے اپنے بیٹے کی خوشبو اور اس کا لمس اپنے ارد گرد محسوس ہوتا ہے!مجھے لگتا ہے کہ ہر روز اپنے معمول کی طرح رات کو سونے سے قبل وہ میرے کمرے میںآتا ہے، میں نیم خوابیدہ ہوتی ہوں ، وہ میرے پائوں چھوتا ہے اور دیر تک کھڑا رہتا ہے، پھر وہ مجھے شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے، میں سو جاتی ہوں، دن بھر بھی وہ مجھے گھر میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے کہتے ہیں کہ شہید زندہ ہوتا ہے، آپ لوگوں میں سے زیادہ تر شہدا کے والدین ہیں عورتوں کے آنسو ان کی پلکوں کے بند پر نہ ٹھہر رہے تھے۔یوم شہدا کی اس تقریب میں زیادہ تر شرکا وہ تھے جنہوں نے اپنے کسی نہ کسی پیارے کو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے کھویا تھا۔
جس نے اس بات کا تجربہ حاصل نہیں کیا اسے اندازہ نہیں مگر یہاں پر موجود ہر شہید کے وارث کو میری بات کی سچائی کا اندازہ ہو گا کہ شہید واقعی زندہ ہوتا ہے میں نے کبھی نہیں سوچا کہ بلال علی کو فوج میں نہ بھیجتی دکھ تو یہ ہے کہ میرے پاس اپنی مادر ملت کے حوالے کرنے کے لئے فقط ایک بلال تھا، اللہ کی قسم اگر میں نے دس بلال پیدا کر کے پالے ہوتے تو بھی انہیں مادر وطن کی محبت کا درس دیکر امانت اللہ کے حوالے کر دیتی، میں تو کم نصیب ہوں کہ ایک ہی چراغ جلا سکی جو رہتی دنیا تک میرے وطن کی ہر شمع کو منور رکھے گا اگر میرے دس بلال اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوتے تو میں تب بھی خود کو خوش نصیب کہتی، میرے لال میرے بلا ل کی دلی خواہش پوری ہوئی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ جب فرشتے میرے زندہ بلال کو لے کر جنت میں گئے ہوں گے تو اللہ نے کہا ہو گا کہ کیسی خوش نصیب ماں ہے جس نے اس لال کو جنم دیا سسکی سے زیادہ مجھے اس ماں کی آواز نہ آئی تھی، فاصلہ زیادہ تھا ، مگر کیمرہ بار بار اس عظیم ماں کا کلوز اپ دکھا رہا تھا جس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے-
میرے پیارے نبی پاک ﷺ نے اٹھ کر میرے بلال کا استقبال کیا ہو گا میں تو وہ خوش نصیب ہوں کہ میرے شوہر اور میرے بیٹے کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا کل کوئی چوک کوئی سڑک میرے بیٹے کے نام سے منسوب ہو جائے گی، وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کی نظر بلال علی کے نام کی تختی پر پڑے گی، کوئی اسے دل سے دعا دے گا، کوئی اس کی بہادری کے کارنامے کو دس لوگوں میں بیان کرے گا، بس مجھے یہی چاہئے کہ میرے شہیدوں کا نام زندہ رہے، ان کی قربانیوں کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جاتا رہے اپنی بات پوری کر کے وہ مبہوت کھڑی تھیں، روشنیوں کا سیلاب تھا سٹیج پر جنہوں نے ان کے منور وجود کو مزید منور کر رکھا تھا۔ایک بار پھر سب لوگوں نے کھڑے ہو کر داد دی۔
میری دعا ہے کہ میرے ملک کانام اور وجود رہتی دنیا تک زندہ رہے پاکستان زندہ باد!!!پرجوش آوازمیں انہوں نے مائیک میں کہا۔ کسی شاعر نے کہا تھا، ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے میں کہتی ہوں کہ یہ جنس گراں مایہ ہے یہ اور ہی دنیا کے باسی ہیں، انہی کو اقبال نے پراسرار بندے کہا تھا کہ جن کا ذوق اور شوق اس دنیا سے ہٹ کر ہے ان کے خوابوں کی شہزادی شہادت ہے، انہیں جام شہادت کی طلب ہوتی ہے اور کسی چیز کی نہیں۔ نہ شہرت کی نہ نام کی، ہمارا ملک اس میں خود کفیل ہے کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس دھرتی میں اگر کچھ بھی ہے تو انہی شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے تالیاں رکنے میں ہی نہ آ رہی تھیں۔
بلال علی تمہیں یقین ہونا چاہئے کہ تمہاری ماں تم سے پیار کرتی ہے تمہاری دھرتی ماں تمہاری قربانی کے عوض تم پر صدقے واری جا رہی ہے یہ سب لوگ جو کھڑے ہو کر تمہاری ماں کو عزت دے رہے ہیں، یہ عزت تم نے ماں کو دلوائی ہے آج یہاں ہر ماں اس بات کا عہد کرتی ہے میرے لال ہر ایک ماں، جتنی مائیں یہاں موجود ہیں، سب اپنے اپنے لال، پال پوس کر اپنی دھرتی ماں پرقربان کر دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔جس طرح ایک بیج سے پودے اور درخت بنتے ہیں،ا سی طرح ہم نے شہیدوں کی وہ فصل بوئی ہے کہ ہر جوان شہادت کی خواہش کرتا ہے کیا آپ سب مائیں اس ملک کی خاطر اپنے اپنے لال قربان کرنے کو تیار ہیں ؟ تیار ہیں نا؟ ان کا سوال ہم سب مائوں کے لئے تھا پس منظر میں ہلکی ہلکی سی موسیقی چل رہی تھی، اے وطن پیارے وطن ، پاک وطن، پاک وطن کیا میں اپنے لال کو وطن پر قربان کرنے کو تیار ہو جائوں گی، کیا اپنے بیٹے پال پوس کر یوں لٹا دینے کا حوصلہ ہے مجھ میں؟ میں نے خود سے سوال کیا، میں تو آج تک راتوں کی تنہائیوں میں اٹھ کر اس بیٹے کو یاد کر کر کے روتی ہوں جس کے نصیب میں فقط چند سانسیں لینا ہی لکھا تھا ہر گز نہیں مجھ میں ایسا حوصلہ نہیں جیسا ان مائوں میں ہے جو ساری دنیا کے سامنے کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی شہادت ان کے لئے اعزازہے!نہ ایسے بیٹے عام ہوتے ہیں نہ ایسی مائیں ان مائوں کی عظمت کو سلام ایسی مائیں بھی جنس گراں مایہ ہیں!!