میرے وطن پر وقت امتحان
سچ بولنے‘ سچ لکھنے اور سچ کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ’’ولایت نامہ‘‘ میں آپ تک پہچانے کا بطور کالم نگار جو دائرہ کار میں نے گزشتہ 20 برس سے قائم کر رکھا ہے‘ الحمدللہ! حقائق کی نقاب کشائی کے اس سلسلہ میں تاہنوز کوئی تعطل یا اس میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے وطن کیخلاف اٹھنے والی کسی بھی تحریک اور سازش کا اپنی فکرونظر کے مطابق سچائی سے مقابلہ کروں کہ برطانوی شہری ہونے کے باوجود میری بنیادی پہچان ہی پاکستان ہے۔ تاہم یہ الگ بات کہ میرے پاکستان‘ میری افواج‘ میرے اداروں اور میری ریاست کے برطانوی جمہوری رول ماڈل کو جن ملک دشمن عناصر نے اگلے روز نذرآتش اور تباہ و برباد کرنے کی گھنائونی مگر ناکام سازش کی‘ انکے بارے میں متعلقہ اتھارٹیز ابھی تک درست الفاظ کا چنائو ہی نہیں کر پائیں۔ یہ افراد غنڈہ عناصر تھے؟ شرپسند تھے‘ ملک دشمن تھے‘ قانون کو انتہائی مطلوب تھے یا پھر ان عناصر کا تعلق کسی Bonafide دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے تھا؟ حکومت کی جانب سے دو لاکھ روپے انعام کے عوض ان ملک دشمن عناصر کی تلاش کے اشتہار سے یہ بات عیاں ہے کہ ’’سیف سٹی کیمروں کی بیشتر تعداد ناکارہ تھی جس سے بروقت تصاویر ریکارڈ نہ ہو سکیں اور یوں حکومت نے مبینہ طور پر مجرموں کی تلاش کیلئے درست معلومات فراہم کرنیوالے افراد کو بطور انعام بھاری رقوم ادا کرنے کا اب فیصلہ کیا ہے۔ معاملہ چونکہ اب انعام کا ہے اس لئے متعلقہ اتھارٹیز کو کسی بھی گرفتاری سے قبل بے گناہی کے عمل کو ہر حال میں یقینی بنانا ضروری ہوگا۔ قومی املاک اور فوجی تنصیبات تباہ کرنے والوں کی شناخت کے بارے میں اندرون وطن گہرائی سے شاید اتنا استفسار نہ کیا جارہا ہو مگر انگلستان میں تھنک ٹینکس اور برطانوی سیاسی حلقوں کی جانب سے اٹھائے یہ سوالات کہ کورکمانڈر اور دیگر عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے والے یہ ملک دشمن عناصر آخر تھے کون؟ بدستور معمہ بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے بلاتاخیر فوری ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ فوجی تنصیبات پر حملے‘ توڑ پھوڑ اور کورکمانڈر ہائوس کو نذرآتش کرنے کے انتہائی قابل مذمت واقعہ پر یہاں یہ سوال بھی زیربحث ہے کہ ملک اور فوج کے یہ دشمن ایک تھری سٹار جنرل کی رہائش گاہ پر آخر کس طرح پہنچنے میں کامیاب ہو گئے؟ جبکہ کسی بھی فلیگ سٹاف ہائوس یا کور کمانڈر ریذیڈنٹس کے قریب چڑیا تک پر نہیں مار سکتی۔ یاد رہے کہ ٹو سٹار اور تھری سٹار جنرلز سمیت بریگیڈیئر کی رہائش گاہیں بھی ایم پی اور انٹیلی جنس کے زیرنگرانی ہوتی ہیں تاکہ ملک فوج دشمن کی یہاں تک رسائی ممکن نہ ہو سکے۔ پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ فخر اپنی فوج پر جس نے ان ملک و قوم دشمنوں کے اس گھنائونے جرم کے باوجود صبر وتحمل اور بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی سخت کارروائی سے اجتناب کیا۔ مگر یہ سوال کہ ملک کو سیاسی اور عسکری طور پر کمزور کرنے کے پس پردہ اصل قوتیں کون ہیں؟ انٹرنیشنل میڈیا پر ابھی تک اٹھایا جا رہا ہے۔ اس سوال کا جواب کون دیگا؟ یہی اب وہ سوال ہے جس کا قوم کو جواب درکار ہے۔ مجھے وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور بیٹھ کر چونکہ یہ سطور لکھنا ہوتی ہیں اس لئے اپنے وطن کی بقاء و سلامتی اور قومی استحکام کیلئے میں ہر وہ تحقیق اور مطالعاتی پلیٹ فارم استعمال کرتا ہوں جس میں حقائق سیاسی ملاوٹ سے پاک ہوں۔ اداروں اور سیاستدانوں کے مابین پڑی جن ملکی دراڑوں کو میں یہاں دیکھ رہا ہوں‘ وطن عزیز میں بیٹھے میرے متعدد کالم نگار دوستوں کیلئے یہ سب کچھ دیکھنا شاید ممکن نہ ہو۔ برطانوی جمہوریت کی ساڑھے تین سو سالہ تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو وطن عزیز میں جاری Colonial System کے سائے آج بھی جوں کے توں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سیاسی آفتوں کے بعد معاشی اور اقتصادی بدحالی کی اب اس سٹیج پر پہنچ چکا ہے جہاں قوم کا غیریقینی صورتحال سے دوچار ہونا مقدر بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
سیاست میں مخالفین اپنی سیاست کا رخ جب ذاتیات کی جانب موڑ لیں تو قومی اداروں کی عزت و احترام پر گہرے منفی اثرات خودبخود مرتب ہونے لگتے ہیں۔ خوف کی ایسی ہی کیفیت آج وطن عزیز میں ہے جس کا انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ مالیاتی ادارہ بھی اب بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ سٹاف لیول پر کئے گزشتہ برس کے معاہدوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو مزید دبائو میں لانے کیلئے نئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں آئی ایم ایف کی شرائط مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ مالیاتی فنڈز مہیا کرنیوالے اس ادارے نے قرض پر لگائی دیگر شرائط کے بعد اب یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ پاکستان کو دیئے جانیوالے قرض کی رقم پر یہ ضمانت بھی درکار ہے کہ دی جانیوالی رقوم سیاسی فائدے یعنی انتخابات کے انعقاد پر استعمال نہیں ہوگی۔ یہ بھی یاد رہے کہ آئی ایم ایف کو یہ خدشہ بھی ہے کہ پاکستان کو اگر قرض دیا گیا تو حکومت وہ رقوم کہیں الیکشن مہم میں استعمال نہ کرے۔ اس طرح کی مزید شرائط شامل کی گئی ہیں جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ نئی شرائط مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے مختلف سطح کی ملاقاتوں کے بعد آئی ایم ایف کو لگانی پڑی ہیں۔ سادہ ترین الفاظ میں آئی ایم ایف کے مطالبات اور شرائط کا اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو حقیقت عیاں ہے کہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کی جانب سے بیشتر شرائط پوری کرنے کے باوجود اعتماد نہیں کر پا رہا۔ ایسے حالات میں یہ کہنا کہ پاکستان کو اب آئی ایم ایف کی قطعی پرواہ نہیں محض قوم کو عارضی دلاسہ دینے کے مترادف ہوگا۔ ورنہ ملک و قوم پر اس وقت مالی اور معاشی بحران کے جو شدید منفی اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں‘ ان سے یہ اندازہ لگانا کہ 76 سالہ پاکستان کو آنیوالے دنوں میں مزید اور کتنے امتحانات اور ملکی یکجہتی کے کن دشوار کن مراحل سے گزرنا ہے۔