اس سسٹم پر اعتماد کرنا پڑے گا : ہائیکورٹ
لاہور (خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے پرویز الٰہی‘ عثمان بزدار سمیت عمران کی 121 مقدمات کی کارروائی روکنے کی درخواستیں نمٹا دیں۔ ہائیکورٹ نے مختصر فیصلہ جاری کیا۔ درخواست گزاروں نے غیر قانونی طور پر ہراساں کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عمران کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی استدعا پڑھ کر سنائی جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا یہاں پر ان کا کیس الگ ہے، سپریم کورٹ میں آرٹیکل 245 کے بارے دائر کی گئی ہے، بنچ کے سامنے عمران کی تمام ایف آئی آرز کو اکٹھا کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ نو اور دس مئی کے واقعات کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کو چیلنج کیا گیا ہے، عمران خان نے یہاں پر بھی اسی نوعیت کی استدعا کی ہے۔ عدالت نے کہا اس کے بعد حالات تسلسل سے تبدیل ہوتے رہے ہیں ، درخواست پر بنچ نے چار سوال بنائے ہیں جن کا آپ کو جواب دینا ہے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ آئینی بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا اچھا کیا آپ نے تمام ہسٹری بیان کردی، اب آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟۔ آپ نو مئی سے پہلے کے واقعات پر جاری کارروائی پر فیصلہ چاہتے ہیں؟۔ عدالت نے کہا آپ کو تین مقدمات کی ایف آئی آرز فراہم کی گئیں، انہی ایف آئی آرز کی بنیاد پر آپ کو حفاظتی ضمانت ملی۔ وکیل عمران نے کہا ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کتنے مقدمات درج ہوئے اسی لئے عدالت آئے، حکومت کی تبدیلی کے بعد عمران خان اور پارٹی کیخلاف غیر قانونی کارروائی ہوئی، تین دہائیاں قبل غیر قانونی کارروائیوں کے حوالے سے ایک ججمنٹ آئی تھی، ایک سال کے دوران اختیارات کے غلط استعمال ہوا سب کے سامنے ہے۔ عدالت نے کہا آپ ایف آئی آرز بتائیں پھر اس کو غیر قانونی ثابت کریں، ہمارے سامنے نہ آپ کی حفاظتی ضمانت، نہ مقدمہ اخراج کا ایشو ہے، ایسے لگتا ہے جیسے ہم ٹاک شو میں بیٹھے ہیں اور گفتگو کررہے ہیں ،جو چار سوال ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں اس پر دلائل دیں، آپ نے پولیس کے اختیارات سے تجاوز کی بات کی، پہلے ایف آئی آرز سامنے لائیں گے پھر دیکھیں گے کہ پولیس نے اختیارات سے تجاوز کیا، آئین کے ابتدائیے میں سیاسی حقوق کی بات کی گئی ہے اسے بھی مدنظر رکھیے گا۔ عمران خان کیخلاف ملک بھر میں درج 121 مقدمات کی تفصیلات لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کیخلاف اسلام آباد میں 31 لاہور میں 30 فیصل آباد میں 14 مقدمات درج ہیں‘ بھکر میں 4 شیخوپورہ 3 گوجرانوالہ میں 2 اور جہلم میں 3 مقدمات میں نامزد ہیں، اٹک میں 4 راولپنڈی میں 10، اٹک، میں 4، بہاولپور میں 5 مقدمات عمران خان کے خلاف درج ہیں۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ نگران حکومت جو کر رہی ہے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ، نگران حکومت کا کام صرف الیکشن کرانا ہے یہ نہیں جو کر رہی ہے ، 71 سال کے بندے پر بے شمار مقدمات درج کیے گئے۔ عدالت نے کہا آپ کا کیس غیر معمولی ہے جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا جی عمران خان اس عمر میں بھی فٹ ہیں، ہماری استدعا ہے غیر قانونی مقدمات اور گرفتاریوں سے روکا جائے، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ، اگر ویڈیو لنک پر پیشی کی استدعا منظور ہو جائے تو شاید یہ سلسلہ کم ہو جائے ، عدالت نے کہا کیا ہم حکم دے سکتے ہیں کہ ہر مقدمہ میں ویڈیو لنک سے پیشی کی جائے ،سنگل بنچ نے کہا تھا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے لیے متعلقہ عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے ، آپ کے ساتھ کچھ نیا نہیں ہو رہا ،ماضی میں سیاسی رہنماﺅں کی اسی طرح پیشیاں ہوئیں ،سیاستدان ایک کے بعد دوسرے کیس میں انہی عدالتوں میں پیش ہوئے ، عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار یہ کہتے ہیں بدنیتی سے ایک کے بعد دوسرا مقدمہ درج کیا گیا۔ سرکاری وکیل نے کہا القادر ٹرسٹ میں عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ میں تھے، سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فاضل ججز ملزموں کو عدالتوں کے اندر سے گرفتار کروا دیتے ہیں۔ عدالت نے کہا آپ اسلام آباد ہائیکورٹ کی نہیں پنجاب کی بات کریں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ جتنا ریلیف عمران خان کو عدالتوں سے مل رہا ہے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ کو اس عدالت کے سامنے یہ بات نہیں کرنا چاہیے تھی، عدالت نے کہاکیا آپ نے تمام مقدمات کو ایک عدالت میں اکٹھا کرنے کی درخواست دی ؟سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا ہم نے ابھی تک ایسی کوئی درخواست نہیں دی ، عدالت نے کہا آپ ایسا تاثر نہ دیں کہ آپ کو عدالتوں سے خاص سہولت مل رہی ہے،آپ ایسا تاثر نہ دیں کہ سسٹم پر آپ کو اعتماد ہی نہیں ،آپ کو ایسا ریلیف دینے سے معاشرے میں کیا تاثر جائے گا ،ہمیں اس سسٹم پر اعتماد کرنا پڑے گا ، ہم صبح سے شام تک یہاں ہر قسم کے کیسز سنتے ہیں ،آپ کے پاس قانونی راستہ موجود ہے ، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ،وکیل عمران خان نے کہا کہ میں نے ایسا ریلیف تو مانگا ہی نہیں ، میری استدعا تو ہے یہ کہ میرے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو، جلدبازی میں گرفتاری اور بار بار مقدمات درج کروا رہے ہیں ، ہم چاہتے ہیں انصاف تک رسائی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ عدالت نے کہا یہاں صبح سے شام تک ملزم پیش ہوتے ہیں اور انہیں حفاظتی ضمانت ملتی ہے۔