سپریم کورٹ نے کمشن کی کارروائی روک دی
اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس پر حکومت کی جانب سے عدالت عظمی کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے گئے تین رکنی انکوائری کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کمشن کوکارروائی سے روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے۔ حکمنامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے۔ حکم نامہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناعی جاری کردیا اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے انکوائری کمشن کے 22 مئی کے احکامات کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کردیا ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کمشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی ہے۔ دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی نامزدگی کیلئے بھی چیف جسٹس سے مشورہ ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ججز کو نامزد کرنے سے ججوں پر شبہات پیدا ہوئے۔ بادی النظر میں کمیشن کی تشکیل مشکوک ہے۔ حکومت کی جانب سے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی موجودگی سے متعلق اعتراض مسترد کیا جاتا ہے‘ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ آڈیو لیکس جوڈیشل کمشن کیخلاف چاروں درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت عظمی نے تحریری حکم میں کہا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے معاملے پر اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کا نوٹیفکیشن بظاہر آرٹیکل 209 سے تجاوز ہے، حکومت نے ججز کے درمیان تفریق ڈالنے کی کوشش کی۔ بظاہر آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں۔ بادی النظر میں آڈیو لیکس کمیشن عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ آئین عدلیہ کو مکمل آزادی دیتا ہے۔ جو تحقیقات اداروں نے کرنی تھی وہ ججز کے سپرد کردی گئی۔ عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کے لئے قانون سازی میں جلد بازی کی گئی، حکومت اگر ہم سے مشورہ کرتی تو ہم کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔ حکومت ججز میں اختلاف پیدا کررہی ہے، کیسے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کرسکتی ہے۔ درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوتے ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ میں بینچ سے الگ ہو جا¶ں؟۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، آپ کی درخواست قابلِ احترام ہے، چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے، عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کمیشن کی تشکیل پہ سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے اقدام کیا گیا؟۔ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ءمیں بھی مشاورت کا نہیں تھا، یہ ایک پریکٹس ہے، کمیشن کے لیے جج چیف جسٹس نامزد کرے گا، ایسے 3 نوٹیفکیشن واپس لیے گئے جن میں چیف جسٹس کی مشاورت شامل نہ تھی، سپریم کورٹ کے اس حوالے سے 5 فیصلے بھی موجود ہیں، براہِ مہربانی حکومت سے کہیں کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق چلے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ءمیں مشاورت کا نہیں کہا گیا، جانے انجانے میں ججوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، حکومت نے کمیشن میں ضمانت اور فیملی میٹرز کو بھی ڈال دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو جائیں اسے حل کریں، پھر ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے کیس سمیت دیگر میں فل کورٹ کی درخواست کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں قانون میں لکھا ہے کہ 5 ججز کا بینچ ہو، آپ کی فل کورٹ کی درخواست تو اس قانون کے بھی خلاف تھی، ہم نے 8 ججوں کا بینچ بنایا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون 5 ججز کے بینچ کا کہتا تھا تو 5 جج کیوں نہیں تھے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے کیس میں جیسے آپ کو بتایا اگر ہم سے مشورہ کرتے تو آپ کی مدد کرتے، آئین کا احترام کریں، ہمارے بغیر پوچھے عدلیہ کے امور میں مداخلت کریں گے تو۔۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل محترم! آپ کا اور آپ کی م¶کل وفاقی حکومت کا احترام کرتے ہیں، اداروں کا احترام کریں اس میں عدلیہ بھی شامل ہے، 9 مئی کے واقعات کا عدلیہ کو فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی، وفاقی حکومت چیزیں آئین کے مطابق حل کر دے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ کمیشن کے لیے جج کی نامزدگی کا فورم چیف جسٹس پاکستان کا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس خود کو کمیشن میں نامزد کریں۔ نہ ہی چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابند ہیں۔ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ بہت ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت سے گزارش کریں آئینی روایات کا احترام کریں۔ عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے؟ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے، حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بینظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں، کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟ وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔ وکیل نے کہا کہ کمشن نے پورے پاکستان کو نوٹس کیا کہ جس کے پاس جو مواد ہے وہ جمع کراسکتا ہے، لیکن ریکارڈنگ کس نے کی اس پر کچھ نہیں کہا، کسی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے رہمارکس دیے کہ اس کمیشن کا قیام آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجاجاسکتا ہے۔ بظاہرحکومت نے ججز کےخلاف مواد اکٹھاکرکے مس کنڈکٹ کیا۔ حکومت یا پیمرا نے آڈیو چلانے سے روکنے کی ہدایت نہیں کی۔ شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پرکوئی کارروائی نہیں کی۔ حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی، لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہے، ججز اپنی مرضی سے کیسے کمشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی گئی اور بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آڈیولیکس انکوائری کمشن پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے بعد میں عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔