سفیرِ امن عنایت حسین بھٹی
گجرات شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ضلع کے تین بہادر فوجی افسروں، میجر راجہ عزیز بھٹی،میجر محمد اکرم اور میجر شبیر شریف، نے دفاع وطن کا فریضہ ادا کرتے ہوئے بہادری و دلیری کی ایسی کہانیاں لکھیں کہ نہ صرف اپنوں بلکہ دشمنوں نے بھی ان کی وطن پرستی کو تسلیم کیا اور حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں وطن کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ اور اس کے بعد نام آتا ہے گجرات میں پیدا ہونے والے تین عظیم ترین لوک گلوکاروں، یعنی عالم لوہار،عنایت حسین بھٹی اور شوکت علی خان، کا۔ ان تینوں نے ماں بولی کی محبت کا کچھ اس طرح حق ادا کیا کہ ان پڑھ ہو یا پی ایچ ڈی ہر کوئی ان کی صلاحیتوں اور خدمات کا معترف ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ماں بولی پنجابی کی خدمت کرنے میں ان تینوں نے وہ مقام حاصل کیا ہے کہ قیامت تک ان کا نام لوگوں کے دلوں میں عزت و محبت سے باقی رہے گا ۔
31 مئی معروف فلمساز، اداکار، گلوکار، کالم نگار، ٹی وی اینکر ، اسکالر اور سفیرِ امن عنایت حسین بھٹی کا یومِ وصال ہے ۔ مرحوم 12 جنوری 1928ء کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گجرات کے پبلک ہائی اسکول سے حاصل کی پھر وکیل بننے کے لیے آپ لاہورچلے آئے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور آپ کو دوران تعلیم ہی وائی ایم سی اے میں بطور اداکار پہلی اسٹیج پرفارمنس دینے کا موقع مل گیا۔ اس پرفارمنس کے بعد انھیں ریڈیو پر گانے کی پیشکش ہوئی اور پھر ہدایتکار نذیر نے عنایت حسین بھٹی کا گانا سنا تو اپنی فلم میں گانے کی پیشکش کردی۔ اس کے بعد موسیقار جی اے چشتی نے عنایت حسین کو اپنی فلم ’پھیرے‘ میں گانا گانے کے لیے کہا، جس کا گیت ’او اکھیاں لاویں ناں‘نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ نامور موسیقار فیروز نظامی کے مشورے پر عنایت حسین بھٹی نے بطور گلوکار اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تو انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
1955ء میں عنایت حسین بھٹی کو فلم ’ہیر‘ میں ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا، گلوکاری کے ساتھ ساتھ ان کی اداکاری کو بھی خاصا سراہا گیا۔ انھیں پاکستان کا پہلا سپراسٹار پلے بیک گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔ عنایت حسین بھٹی نے متعدد ہٹ گانے گائے۔ چن میرے مکھناں، جند آکھاں کہ جان سجناں، دنیا مطلب دی او یار، دم عشق دا بھرنا پے گیا نی، اور دلبر ملسی کیہڑے وار وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔عنایت حسین بھٹی نے1967ء میں فلم ’چن مکھناں‘ بنائی جس نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد فلم سجن پیارا، جند جان، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا، ظلم دا بدلہ سمیت کئی کامیاب فلمیں بنائیں۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ کے دوران لازوال ملی نغمے گاکر عنایت حسین بھٹی امر ہوگئے۔ بھٹی صاحب نے بطور پروڈیوسر بہت سی فلمیں بھی بنائیں جن میں ’وارث شاہ‘، ’منہ زور‘، ’ظلم دا بدلہ‘ سمیت کئی یادگار فلمیں پروڈیوس کیں۔
بھٹی صاحب کو اپنی ماں بولی زبان پنجابی سے بہت محبت تھی۔ انھوں نے پنجابی زبان اور ثقافت کی بہتری کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دیں۔ ان کا رجحان ابتدا سے ہی صوفی شاعری کی طرف تھا۔ عنایت حسین بھٹی کو وارث شاہ، میاں محمد بخش اور دوسرے پنجابی صوفی شعراء سے والہانہ عشق تھا۔ عنایت حسین بھٹی کئی برسوں تک ایک اخبار کے لیے ’چیلنج‘ کے نام سے کالم بھی تحریر کرتے رہے۔ پنجابی زبان کی ترویج کے لیے انھوں نے ضیاء شاہد اور مسعود کھدر پوش کے ساتھ مل کر ہفت روزہ میگزین ’کہانی’ شروع کیا۔ الغرض بہت کم وقت میںعنایت حسین بھٹی فن کے اس مقام پر پہنچے جس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ ترستے ہیں۔ 1991ء میں پی ٹی وی نے صوفیائے کرام، ان کی درگاہوں اور تعلیمات کے حوالے سے ’چانن ای چانن‘پروگرام شروع کیا تو اسے پیش کرنے کے لیے عنایت حسین بھٹی کا انتخاب کیا گیا۔ بعد ازاں ’اجالا‘ اور پھر ’تجلیوں‘ کے نام سے یہ پروگرام چلتا رہا۔
صاحبو! یوں توعنایت حسین بھٹی مرحوم نے ہر شعبے میں ہی کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے مگر مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ان کی ایک خاص پہچان تھی۔ پنجاب حکومت نے انھیں کئی بار امن کمیٹیوں کا رکن منتخب کیا ۔ اس کے علاوہ وہ اتحاد بین المسلمین کے بھی رکن رہے۔ وہ مذہبی انتہا پسندی کے بہت خلاف تھے۔ پاکستانی ایجنسیوں اور عسکری قوت نے بیرونی دہشت گردی کا صفایا کردیا تو دشمن طاقتوں نے ملک کو آگ و خون میں نہلانے کے لیے اندورن ملک خانہ جنگی کا ماحول بنانے کے لیے کام شروع کردیا۔ حالیہ دنوں ملک میں جس طرح کا گھیراؤ جلاؤ دیکھنے میں آیا ہے اس دیکھ کے ہر محب وطن دکھی۔ سفیرِ امن کی دور بیں نگاہوں نے ایسے خطرات کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔انھیں پتا تھا کہ پاکستانی قوم کو کوئی بھی کسی بات پر مشتعل کر کے ایک دوسرے کے مقابل لاسکتا ہے ۔ اسی لیے مذہبی ہم آہنگی، بین المذاہب رواداری بھائی چارے، فروغ اور سیاسی شعور کی بیداری کے لیے عنایت حسین بھٹی نے عالمی امن تحریک کا آغاز کیا۔ اس نیک مقصد کے حصول کے لیے آپ نے متعدد سیمینار منعقد کروائے۔ ان سیمینارز میں ایک طرف آپ مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو ختم کرنے اور دوسری طرف مختلف مذاہب کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت کو کم کرنے پہ زور دیا کرتے تھے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں آج بہت سے لوگ انھیں ’سفیرِ امن‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔