پاکستان کی معاشی حالت اور سیاسی قیادت کا کردار
پاکستان اس وقت کئی حوالے سے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف اقتصادی مسائل نے بری طرح ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک اور عوام کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی قیادت کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن انھیں باہمی آویزش سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔ امریکا اور یورپی ممالک ویسے تو اس بات کے دعویدار ہیں کہ ان کا پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ سمیت کئی اہم معاملات میں ان ممالک کا ساتھ دے کر ان کے ساتھ اپنے خلوص کا ثبوت بھی دیا لیکن ان کی جانب سے پاکستان خیر کی توقع کم ہی رکھ سکتا ہے۔ یہ ممالک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرانے کے لیے تو اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کریں گے لیکن پاکستان کے سیاسی معاملات میں ضرور ٹانگ اڑائیں گے۔ بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط رکی ہی امریکا کی وجہ سے ہوئی ہے۔
خیر، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو تاحال قرضے کی قسط حاصل کرنے میں کامیابی نہیں بھی مل پائی تو ملک ڈیفالٹ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہوگا۔ وفاقی وزارتِ خزانہ نے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کا گھانا اور سری لنکا سے موازنہ گمراہ کن ہے۔ پاکستان کے ذمہ 10 فیصد سے بھی کم کمرشل اور سکوک بانڈز کی ادائیگی اپریل 2024ء میں واجب الادا ہے۔ باقی قرضہ عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کو واجب الادا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل کے باوجود سٹاف لیول معاہدہ نہ ہونا بدقسمتی ہے، اس کے نتیجے میں قرض کی نویں قسط تاخیر کا شکار ہے۔ 9 ماہ میں پاکستان میں وسیع البنیاد اصلاحات متعارف کی گئیں جن میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق، مالی صورتحال میں بہتری کے لیے سال کے وسط میں ٹیکس عائد کیے گئے، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد کی گئی۔ وزارتِ خزانہ کا یہ کہنا درست ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے آئی ایم ایف کی ایسی پیشگی شرائط کی مثال نہیں ملتی۔ بیان میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ پاکستان معاشی مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کرتا رہے گا اور جلد پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ وزات کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر 50 روپے لیوی وصول کی جا رہی ہے، بڑھتی مہنگائی کے دوران صارفین پر ٹیکس لگانا عقل مندی نہیں ہوگی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی ایک سال میں دگنی ہو چکی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف شرائط کی خلاف ورزی سے پیدا مشکلات پر قابو پا لیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 3.2 ارب ڈالر پر آ گیا۔
مذکورہ بیان کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ سیاسی استحکام آنے کے بعد معیشت میں نمایاں بہتری آئے گی۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ معاملات سیاسی قیادت نے سدھارنے ہیں اور وہ جتنی جلد سیاسی عدم استحکام پر قابو پالیں گے معیشت اتنی ہی جلدی بہتری کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ اس صورتحال میں خوش آئند بات یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کی سربراہی پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کریں گے۔ مذاکراتی ٹیم انتخابات سے متعلق حکومت کے ساتھ لائحہ عمل طے کرے گی۔ اس سے پہلے بھی عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور فریقین کے مابین مذاکرات ہوئے بھی لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا اور پھر 9 مئی کو بظاہر عمران خان کی گرفتاری کے بعد ساری صورتحال ہی بدل گئی۔
9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ہونے والی کارروائی کو بنیاد بنا کر ہی امریکا اور برطانیہ جس طرح پاکستان کے معاملات سے متعلق تشویش کا اظہار کررہے ہیں وہ معنی خیز ہے۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر باب میننڈیز اور امریکی نمائندگان میں پاکستان کاکس کی سربراہ شیلا جیکسن نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ ادھر، تقریباً بیس برطانوی سیاست دانوں نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی عمران خان کے ساتھ ہونے والی زوم کال سے آدھا گھنٹہ پہلے مبینہ طور پر پی ٹی اے نے عمران خان کے گھر کا انٹرنیٹ کنکشن منقطع کر دیا گیا۔ ان سیاست دانوں نے 9مئی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان میں سیاسی قیدیوں اور صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
امریکا اور برطانیہ کو انسانی حقوق کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں رواں ماہ کے دوران ہونے والے جی 20 اجلاس پر کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ دونوں ممالک یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور تقریباً پونے چار سال سے بھارت نے وہاں کرفیو لگا رکھا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی اگر ان ممالک کو کوئی ہمدردی ہوتی تو اب تک آئی ایم ایف کی طرف سے ہمیں قرضے کی قسط مل چکی ہوتی۔ اگر آئی ایم ایف جنگ زدہ یوکرین کو 16.5 بلین ڈالر دے سکتا ہے تو پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کیوں نہیں؟ لیکن کسی بھی دوسرے ملک کا گلہ بعد میں بنتا ہے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری اپنی سیاسی قیادت کا کردار کیسا ہے۔ ملک کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ان کا حل صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ سیاسی قیادت مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور اپنی اناؤں کو ملکی مفاد کے لیے قربان کردے۔