• news

’’عمران داری‘‘ اور ’’سْفنا‘‘

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ فوجی تنصیبات کو جلانے‘ اکھاڑنے اور قومی پرچم کے علاوہ مسجد تک کی بے حرمتی کرنیوالے 9 مئی کے ننگِ ملک و ملت واقعات کا بھی جواز نکالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے‘ کیا وہ حبِ عمران میں آنکھوں پر پٹی چڑھائے بیٹھے ہیں یا اس ارض وطن اور اسکے اداروں کیخلاف ان کا اپنا خبث باطن بھی اپنے اظہار کے راستے نکال رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے میں نے جناح ہائوس لاہور کے مشاہدے کے دوران وہاں آتشزنی اور توڑ پھوڑ کے جو دلدوز مناظر دیکھے‘ میرا یقین ہے کہ ایسے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کوئی بھی محب وطن ان واقعات کے مرتکب بدبختوں‘ انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں پر نفرین کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے اس پر اپنے یوٹیوب چینل پر بھی اظہار خیال کیا اور جناح ہائوس میں تخریب کار عناصر کے ہاتھوں ہونیوالی تباہی و بربادی کے مناظر دکھائے تو میرے کچھ دوست جو شاید اپنے تئیں دیانتداری کے ساتھ عمران خان کے فلسفہء سیاست کو درست سمجھتے ہوں گے‘ قومی املاک کی اس تباہی و بربادی پر بھی اور قومی پرچم اور مسجد کی توہین ہوتے دیکھ کر بھی حبّ عمران میں ان واقعات کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میرے ایک دوست جو سفیر پاکستان کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں‘ مجھے مشورہ دینے لگے کہ جن حکمران اور مقتدر طبقات نے قومی دولت کی لوٹ مار کرکے ملک میں اور ملک سے باہر اربوں روپے کی جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں‘ اللہ آپ کو ان جائیدادوں کا بھی وزٹ کرنے کی توفیق دے۔ میں نے انہیں باور کرایا کہ میں نے قومی دولت کی لوٹ مار کرنیوالوں کی تو کبھی وکالت نہیں کی مگر آپ یہ بتائیں کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے جناح ہائوس اور ’’شہداء کی یادگاروں‘ ملک کیلئے جانیں قربان کرنیوالے شہداء کے مجسموں‘ 65ء کی جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑانے والے ہمارے جنگی جہاز‘ ریڈیو پاکستان پشاور کی یادگار عمارت اور دوسری عسکری تنصیبات پر دھاوا بول کر ان کا حشرنشر کیا اور بے دردی کے ساتھ انہیں راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل کیا‘ یہ سب جائیدادیں‘ تنصیبات اور مقامات کیا قومی دولت کی لوٹ مار کرنیوالوں کی ذاتی جاگیریں تھیں؟ اور جناب! قومی دولت کی لوٹ مار کے جو قصے اب عمران خان‘ انکے اہل خانہ اور انکے قریبی ساتھیوں کے ساتھ منسوب ہو کر سامنے آرہے ہیں‘ کیا اس پر بھی خان صاحب کے اندھے عقیدت مندوں کی جانب سے کبھی غم و غصہ کا اظہار سامنے آئیگا۔ حضور، ریاست مدینہ کی بات کرنیوالے کے اپنے لچھن تو دیکھیں۔ جو حدوداللہ کے قوانین کی زد میں ہو‘ وہ ریاست مدینہ کا نظام لائے گا؟  بس اندھی عقیدت کا ایسا جھکڑ چلا ہے کہ اسکی لپیٹ میں آنیوالوں کو اور کچھ دکھائی‘ سجھائی ہی نہیں دے رہا۔ 
آپ میں اگر وطن سے محبت کی ہلکی سی رمق بھی ہو اور کجا آید مسلمانی کی چادر آپ نے نہ لپیٹ رکھی ہو تو 9 مئی کے واقعات کے سامنے آپ کو ملک کی سلامتی و خودمختاری کیخلاف دشمن ملک بھارت کی سازشیں بھی ہیچ نظر آئیں گی مگر اندھے عقیدت مندوں کو تو حبّ عمران میں دشمن کی فوج کا ہماری اندرونی پیدا کردہ کمزوریوں کو بھانپ کر ہم پر چڑھائی کرنا بھی وارا کھا رہا ہے۔ اور معاف کیجئے کہ ’’عمران داری‘‘ کے ساتھ بعض اعلیٰ عدالتی شخصیات کے مفادات بھی اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ 9 مئی کے دلخراش واقعات سے یہ کہہ کر ’’مثبت‘‘ پہلو دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان واقعات سے عدلیہ پر تنقیدی توجہ تو ہٹ گئی۔ 
یہ ہمارے لئے بلاشبہ سر پیٹنے کا مقام ہے۔ جنہوں نے فلسفہ ’’عمران داری‘‘ روشناس کرایا‘ اسے پروموٹ کیا اور پھر دھونس دھاندلی سے اس فلسفہ کو لاگو کرایا‘ اب وہ اپنے اس ’’کارنامے‘‘ پر چاہے پچھتاوے کا اظہار ہی کرتے رہیں‘ اس فلسفے نے ملک و ملت کو جو نقصان پہنچا دیا ہے‘ اسکی تلافی اب تادیر ممکن نہیں ہو پائے گی۔ جناب! ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔‘‘ بھگتیں۔ ابھی اور بھگتیں۔ آپ اس فساد کی جڑ کو چاہے پچھتاوے کے احساس کے ساتھ ہی جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرینگے تو بھی یہ جڑ آپ کیلئے پریشانیوں کا اہتمام کرتی ہی نظر آئیگی۔ اس فتنے پر اب جلد بازی میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ یہ آپ ہی کی دکھتی رگیں ہیں جن سے اب حکمت و تدبر کے ساتھ آہستہ آہستہ ہی خلاصی ممکن ہو پائے گی۔ اس گند کے بھبّکے تو اب پورے معاشرے میں سڑاند چھوڑ رہے ہیں۔ ’’عمران داری‘‘ نے گھر گھر میں نفرتوں کے الائودہکا دیئے ہیں۔ عقل و خرد کی ساری صلاحیتیں ہی چھین لی ہیں‘ دل و دماغ مائوف کرکے رکھ دیئے ہیں۔ اس لئے اب دین و وطن سے لگائو کی بات بھی عقل کے اندھوں کیلئے مسیحائی کا کام نہیں دے پارہی۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ شرافت و اخلاقیات کا تو انہوں نے جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ آپ انکے معاملات اور سازشوں کی کوئی حقیقی آڈیو یا ویڈیو ہی لے آئیں، وہ آپکے گلے ہی ڈال دی جائیگی۔ 
اب کرنے کی بات بس یہ ہے کہ قانون کی عملداری پر کوئی مفاہمت نہ کی جائے۔ جس نے بھی ریاست کیخلاف گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر بلارعایت و رغبت ریاست کی اتھارٹی لاگو کی جائے۔ قانون کی عملداری حقیقی معنوں میں قائم کی جائے اور عہد کیا جائے کہ کوئی ریاستی ادارہ اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر کریگا نہ کسی دوسرے ادارے کی ذمہ داریوں میں تاک جھانک کریگا۔ ماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق حاصل نہ کرنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے۔ ملک کی سرحدوں کے محافظ ادارے افواج پاکستان نے اپنے سے منسوب ماضی کی غلطیوں سے رجوع کر لیا ہے جس کے مثبت اثرات گزشتہ دو دہائیوں سے جمہوریت کے تسلسل کی صورت میں نظر آرہے ہیں اور اب ماضی قریب والی غلطی پر پچھتاوے کا احساس سسٹم کے استحکام کیلئے مزید مثبت اثرات دکھا سکتا ہے تو یقیناً ہماری عدلیہ بھی ماورائے آئین اختیارات والی سوچ سے باہر نکل آئیگی۔ بس مزید دو تین ماہ کی دوری رہ گئی ہے۔ کیونکہ اب:
حالات میکدے کے کروٹ بدل رہے ہیں
ساقی بہک رہا ہے‘ مے کش سنبھل رہے ہیں
چل چلائو کے موسم میں پچھلے دنوں ہمدم دیرینہ اشرف ممتاز بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ سوشل میڈیا پر انکے سانحہ ارتحال کی خبر دیکھی تو دماغ عملاً مائوف ہو گیا۔ ابھی ایک  دن پہلے ہی تو انکے ساتھ فون پر مفصل بات ہوئی تھی۔ ان دنوں کافی زود رنج ہوگئے تھے۔ کبھی کسی وجہ سے انکی ٹیلی فون کال نظرانداز ہوجاتی تو اپنائیت بھرے شکوئوں کے انبار لگا دیتے۔ اتنی مرنجاں مرنج اور سلجھائو والی شخصیت اپنی جبری بیکاری کے باعث اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کچھ الجھ کر رہ گئی مگر یہ گمان تک نہیں تھا کہ انکے ہم سے ازلی بچھڑنے کا وقت آگیا ہے۔ برادرم رئوف طاہر کی طرح اشرف ممتاز بھی بیٹھے بیٹھے اچانک عدم آباد کی جانب رختِ سفر باندھ گئے۔ ہماری بانجھ ہوتی صحافت میں آبرومندی کا یہ نشان بھی اٹھ گیا۔ ہماری تعلقداری کا آغاز 80ء کی دہائی کے آغاز میں ہوا جب ہم عدالتی رپورٹنگ کے میدان کارزار میں اپنے اپنے ’’سکوپ‘‘ کی تلاش میں سرگرداں ہوا کرتے تھے۔ نیوز ایجنسی پی پی آئی سے ہوتے ہوئے اشرف ممتاز ڈان  لاہور کے بیورو آفس میں نثار عثمانی کی تربیت گاہ میں آ گئے۔ لاہور ہائیکورٹ اور مال روڈ پر ہی ڈان کا بیورو آفس ہماری روزانہ کی نشست کا مرکز تھے۔ پھر اشرف ممتاز دی نیشن کا حصہ بن کر ہمارے رفیق کار بھی ہو گئے۔ ہماری فیوچر پلاننگ پر بھی اکثر مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ جب انہوں نے ’’نیشن‘‘ کو خیرباد کہا تو میں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے اس بار تو مجھ سے مشورے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ انہوں نے یہ کہہ کر بے ساختہ میرے ساتھ دوبارہ معانقہ کیا کہ بس یہ معاملہ اچانک ہی ہو گیا۔ جہاں گئے وہاں بھی صبر و قناعت کے ساتھ ہی گزارا کرتے رہے۔ رازونیاز کی باتیں بس ہمارے دلوں میں ہی محفوظ ہیں۔ اگر ہمارے پیشہ میں کسی کی دیانت داری کی مثال دینا ہو تو وہ بس اشرف ممتاز ہی تھے۔ انکی اہلیہ زبیدہ  خانم بھی نوائے وقت میں ہماری کولیگ رہیں اور انکی شادی میں میری مشاورت کا بھی کچھ عمل دخل تھا۔ خدا ہمارے اس دوست کو باغِ بہشت میں آسودہ رکھے۔ چل چلائوکے اس موسم میں:
بیٹھے بیٹھے کھو جائیں گے
ہم بھی سفنا ہو جائیں گے

ای پیپر-دی نیشن