سیاستدان اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالیں
پاکستانی سیاست میں اخلاقی زوال کا جو دور اس وقت آیا ہوا ہے‘ اس سے قبل شاید ہی کبھی آیا ہو۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست کی کہانی کوئی سینکڑوں سالوں پر محیط نہیں۔ صرف پون صدی کا قصہ ہے مگر اخلاقی زوال کا آغاز جو ایوب خان کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف غیراخلاقی زبان و بیان سے ہوا تھا‘ وہ بھٹو دور میں اس وقت عروج پر پہنچا جب نتھ فورس سے شریف خواتین کو سرعام پٹوایا گیا۔ بھٹو صاحب نے مخالفین کو نت نئے ناموں اور القابات سے مخاطب کرنا شروع کیا۔ ان کے دیکھا دیکھی اپوزیشن کی طرف سے بھٹو کے خلاف جو زبان استعمال ہونا شروع ہوئی وہ جملے آج تک زبان زد عام ہے۔ اس دور کے بعد جنرل ضیاء کے دور میں تو خواتین خاص طورپر بھٹو فیملی کی خواتین کی مکروہ کردار کشی کی گئی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس غیراخلاقی عمل میں وہ سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں بھی شامل تھیں جو مذہبی کہلاتی تھیں یہ افسوسناک عمل تھا۔ اسی دور میں شیخ رشید جیسے یادہ گو اور بد زبانی میں ید طولیٰ رکھنے والوں نے عروج پایا۔ یہ سلسلہ میاں نوازشریف کے دور حکومت تک چلتا رہا۔ حد تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جب بینظیربھٹووزیراعظم تھی۔ تب بھی ان کے خلاف یہ مکروہ فعل جاری رہا اور شیخ رشید واہیات جملے بازی کے بعد داد طلب نظروں سے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کی طرف دیکھتے۔
مگر ان تمام ادوار میں براہ راست خواتین پر زیادتی جیسے گھنائونے الزام کا تصور تک نہ تھا۔ خاص طورپر سیاسی خواتین سے زیادتی کے حوالے سے کوئی گند سامنے نہیں آیا۔ ہاں بھٹو دور میں یہ الزامات سامنے آ ئے تھے کہ بزرگ مذہبی رہنمائوں کو ان کی بہو بیٹیوں کو اٹھانے‘ ان کے ساتھ زیادتی کی دھمکیاں دی جاتی تھیں مگر عملاً ایسا کہیں ریکارڈ نہیں ہوا۔ نوازشریف اور بینظیر کے دور میں بھی کوئی مثال سامنے نہیں آئی۔ مشرف کے دور میں بھی سیاستدانوں سے لڑائی جاری رہی مگر گھریلو خواتین سیاست کے شر سے محفوظ رہیں۔ کلثوم نواز البتہ ان سیاسی خواتین میں شامل ہو گئیں جنہیں تشدد سہنا پڑا مگر جو تشدد ضیاء الحق کے دور میں نصرت بھٹو اور بینظیر نے سہا وہ ایک دردناک تاریخ کا حصہ ہے۔ نصرت بھٹو کا لاٹھی چارج سے سر پھٹ گیا۔ بینظیر کو سڑکوں پر دھکے پڑے۔ ایئرپورٹ پر بالوں‘ بازوئوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ کئی دیگر سیاسی و انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی خواتین کو سرعام پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کے باوجود زیادتی کی بات کسی نے نہ کی۔ عمران خان کی اہلیہ جمائمہ‘ ان کی دوسری اہلیہ ریحام خان پر بھی الزامات پیالی میں طوفان ثابت ہوئے مگر خود عمران خان کے دور میں مریم نواز کے خلاف جو کہا گیا‘ لکھا گیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ابھی کل کی بات ہے اس کے جواب میں بشریٰ بیگم (پنکی پیرنی) کو بھی جوابی جملے اور الزامات سہنا پڑ رہے ہیں۔ شکر ہے وہ ابھی تک پولیس کی دسترس سے محفوظ ہیں۔ مریم نوازشریف تو پولیس کے ہاتھوں کئی بار گرفتار ہوئیں‘ جیل گئیں۔
اب موجودہ حکومت کے دور میں سانحہ 9 مئی کے بعد اطلاعات کے مطابق جو خواتین قید ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر گرچہ رہا ہو چکی ہیں مگر بہت سی ابھی تک زیرحراست ہیں۔ ان پر فوجی تنصیبات اور حساس اداروں پر حملہ کرنے‘ اس کام کیلئے اکسانے کے الزامات ہیں۔ اب غضب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے زیرحراست خواتین کے ساتھ زیادتی کی باتیں کرکے ملکی سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس سے قبل وہ اعظم سواتی‘ شہباز گل سمیت کئی مرد سیاستدانوں پر بھی پولیس کی زیادتی کی بات کر چکے ہیں جو بذات خود شرمناک بات ہے۔ کیا ایک قومی رہنما کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے سینیر سیاسی ساتھیوں کا حوالے ایسے گھنائونی اور گندی باتیں کرے۔ سب مائوں بہنوں‘ بیٹیوں والے ہیں۔ سب کی اولاد جوان ہے۔ کیا ان کے بارے میں ایسی باتیں کرنا کسی کو زیب دیتا ہے۔
کیا خان صاحب کے نزدیک اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں۔ اب انہوں نے ان خواتین کے حوالے سے جو پولیس حراست میں ہیں‘ میں سے چند خواتین کے ساتھ جیل میں یا حوالات میں زیادتی کی باتیں کرکے پوری قوم کا سر شرم جھکا دیا ہے۔ باپ اپنی اولاد کے بارے میں ایسی بات بیان کرتا نہیں پھرتا۔ بیٹیوں کو یوں رسوا نہیں کرتے۔ خواتین کی عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ان کے حوالے سے ایسی بات نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی مسئلہ یا خدانخواستہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو اس کو عدالت میں ثبوتوں کے ساتھ لے جائیں اور ملزموں کو قرارواقعی کڑی سزا دلائی جائے۔ کسی کو معاف نہیں کیا جائے۔
وہ خود بھی پولیس حراست میں رہے۔ کیا وہ اپنے ساتھ پولیس کی زیادتی کے الزامات لگا سکتے ہیں۔…