ہمیں شمار کیا، اب مسئلے بھی شمار کرو
پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری پائہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور ادارہ شماریات پاکستان (PBS) کی طرف سے 11 مئی کو پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق آبادی چوبیس کڑور کا ہندسہ عبور کر چکی ہے اور اس رپورٹ میں آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے نتائج شامل نہیں ہیں اگرچہ حتمی رپورٹ ابھی پیش کی جانی ہے مگر محتاط اندازے کے مطابق آبادی پچیس کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔
پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء میں کرائی گئی جس کے مطابق مجموعی آبادی بشمول مشرقی و مغربی پاکستان سات کروڑ سے زائد اور مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ 37 لاکھ تھی۔2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ تھی یعنی تقریباً دو فیصد سالانہ کے ساتھ ہم ستر سالوں میں چھ گنا ہو چکے ہیں۔
مردم شماری کے حالیہ اعدادوشمار پر مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں کی طرف سے بہت سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور اس پر مباحث بھی جاری ہیں تحفظات کا اظہار کرنا سب کا حق ہے مگر مردم شماری کے حوالے سے کیا یہ واحد مسئلہ ہے جس پر بحث و مکالمہ کی ضرورت ہے؟ اصل مسائل تو شائد کہیں درج ہی نہیں ہو رہے یا ان کا ذکر ہی نہیں کیا جا رہا۔ اقوام متحدہ کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جو 2050ء تک دنیا کی کل بڑھنے والی آبادی کا نصف ہوں گے حالیہ نتائج سے یہ واضح ہے آبادی کا یہ بے ہنگم پھیلاؤ اپنے ساتھ مسائل کا انبار لے کر آرہا ہے اور یہ کوئی بلائے ناگہانی نہیں ہے جو خلاف توقع آناً فاناً آپ پر نازل ہوئی پچھلی چار دہائیوں کے اعدادوشمار مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں جسے سننے پر بظاہر کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔بڑھتی آبادی سے پیدا ہونیوالے بے شمار مسائل جیسے غربت، شہر کاری (Urbanisation)، تعلیم اور صحت کی ناقص سہولیات کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ خاندان کے افراد میں بلا سوچے سمجھے کا اضافہ معاشی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کے زیادہ تر گھرانوں میں ایک کمانے والے فرد کے زیر کفالت دس سے بارہ افراد ہیں اگر دیگر تمام ضروریات زندگی حتی کی تعلیم اور صحت کو بھی کچھ دیر کے لئے پس پشت ڈال دیا جائے تب بھی ایک بڑے خاندان کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست ایک مشکل کام ہے۔ اوپر سے روزگار کی تلاش میں دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی سے بھی بے تحاشا مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ محدود ملکی وسائل میں ہر سال روزگار کی تلاش میں شامل ہونے والے نئے افراد کے لیے روزگار کی فراہمی تقریباً ناممکن ہوتی جا رہی ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آبادی کا اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لیئے خاندانی منصوبہ بندی پر زور دیا جاتا ہے مگر صرف خاندانی منصوبہ بندی اس کا واحد حل نہیں ہے اس کے لیے اجتماعی اور مربوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے تاکہ حالت کو بہتر بنایا جائے اور شعور بیدارکیا جائے تاکہ اپنے مسائل سے خود آگاہی حاصل ہو۔ افرادی قوت کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے اس کا بہترین استعمال کیا جائے عام طور پر آبادی پر کنٹرول کے حوالے چائنہ کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک خاندان ایک بچہ کا قانون بنا کر آبادی میں کمی کی اور آج ان کی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے وہاں معاشی ترقی آبادی پر کنٹرول کے ساتھ ہر سطح پر جامع منصوبہ بندی کی وجہ سے ہوئی۔ مردم شماری کا مقصد آبادی کے پھیلاؤ، شہری دیہاتی تقسیم، شرح خواندگی، تعلیم، صحت اور روزگار کے متعلق آگاہی حاصل کرنا اور اس کے مطابق مختلف پانچ دس سالہ منصوبے بنا کر عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر ہمارے ملک میں اس قسم کی منصوبہ بندی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹے کا حالیہ بحران ہمیں جھنجوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں زراعت ایک ترقی یافتہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے بہت کم رقبے پر زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جارہی ہے ہمارے اردگرد کے ممالک میں فی ایکڑ پیداوار ہم سے چار گنا زیادہ ہے اور یہاں زراعت کے لیے وہی پرانے فرسودہ طریقے استعمال ہو رہے ہیں کاشتکاروں کی رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہے اس کام کی تنخواہ لینے والے بھی کسانوں کو سہولیات تو کیا مشورہ دینے سے بھی قاصر ہیں۔ اگر ایک زرعی ملک اپنی آبادی کی غذائی ضروریات بھی پوری نہ کر سکے تو یقیناً لمحہ فکریہ ہے یعنی آبادی میں مسلسل اضافہ اور وسائل جوں کے توں ہیں۔ بڑھتی آبادی کے ان مسائل پر دو طرح سے قابو پانے کی کوشش کی جا سکتی ہے ایک تو خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا مؤثر آغاز اور دوسرا شعوری طور پر اس قابل بنانا کہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ سوچ سمجھ کے کر سکیں۔
ان دونوں تجاویز کا جائزہ بین الاقوامی تناظر میں لیا جائے کہ اقوام عالم اس مسئلے سے کیسے نبرد آزما ہوئیں تو چائنہ کے علاوہ مختلف مسلم ممالک کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش، ایران، انڈونیشیا نے منصوبہ بندی کے حوالے سے مذہبی حلقوں میں پائے جانے والے اختلافات و تحفظات کے باوجود آبادی پر قابو پانے کی عملی مثال قائم کی اور آگاہی مہم کے حوالے سے انڈونیشیا کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں علما، معلمین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے رضا کاروں کے زریعے ایک موثر مہم چلائی گئی۔ ہمارے ملک کی شرح خواندگی عیاں ہے اس لیے کسی بھی مہم کا آغاز لوگوں کو بات سننے پر آمادہ کرنے سے ہو نا چاہیے۔ اس کے لیے علما کرام کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عام طور اہل اقتدار کا جھکاؤ ایسے مسائل کی طرف ہوتا ہے جس سے وقتی واہ واہ تو ہو جاتی ہے مگر دور رس نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ اگر وسائل میں اضافے کی طرف توجہ نہ دی گئی اور آبادی بڑھنے کی رفتار بھی یہی رہی تو رفاہ عامہ کی تمام کاوشیں بے کار رہیں گی اور ہر فرد کو آسودہ اور خوشحال زندگی فراہم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
٭…٭…٭