• news
  • image

عمران خان کا بیانیہ اور پی ٹی آئی کا شتر بت مہار سوشل میڈیا

 ندیم بسرا
ملک کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی مسائل اس وقت زیادہ حل طلب ہیں،جس کی وجہ سیاسی رسہ کشی اور سیاست دانوں کی قلابازیوں  کے ساتھ ان سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے سے کسی بھی معاملے پر اختلافات کو نکتہ عروج پر لے جانا ہے۔مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کا پاکستان تحریک انصاف سے اس قدر زیادہ اختلاف بڑھ رہا ہے کہ ان کے درمیان رسمی بول چال بھی کم ہوتی جارہی ہے۔عمران خان نے ان جماعتوں کے سربراہان کے بارے میں جو بیانیہ قائم کیا ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس قدر زور سے اس کو تھامے رکھا ہے کہ ان جماعتوں کے رہنما کہیں بھی ان کو نظر آتے ہیں وہ ان کو عوامی مقامات پر برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کردیتے ہیں پھر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جو شتر بے مہار کی طرح ہے۔عمران خان کے سوشل میڈیا ہینڈلرز بھی اس میں پورا حصہ ڈالتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی کرپشن یا اقربا پروری یا اختیارات کی کوئی بات وائرل ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نواز شریف،شہباز شریف ،مریم نواز اور ساتھ آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو سمیت مولانا فضل الرحمان کی تصاویر کے ساتھ میمز بناکر پاکستان میں وائرل کردیتے ہیں اور عمران خان کو بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے ان جماعتوں کے ارکان،لیڈرز ایئر پورٹ ،مارکیٹوں،شادی کی رسومات سمیت کسی بھی ہوٹل میں کھانا کھاتے ڈرے اور سہمے رہتے ہیں کہ کہیں پی ٹی آئی کے کارکنان انہیں گھیر نہ لیں ان کی تربیت اس طرح کی جارہی ہے کہ یہ جماعتیں ملک دشمن ہیں ان کے خلاف ویڈیو بنانا،میمز بنانا،پراپیگنڈہ کرنا بالکل درست اور اخلاقاً جائز ہے۔حالانکہ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا اب چونکہ ہمارے ہاں تعلیمی معیار اور تعلیمی قابلیت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے شر ح خواندگی شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتی ہے تو ایسے معاشرے میں لوگوں کے اندر شدت پسندی بڑھ جاتی ہے۔انہیں اسباب کے باعث سانحہ نو مئی پیش آیا جس کا نقصان سب سے زیادہ عمران خان کی جماعت کو اٹھانا پڑا۔اسی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کی کوئی بھی بیٹھک کامیاب نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے سیاسی ڈیڈ لاک ختم کرنے اور سیاسی مصالحت کی کوششیں کی گئیں انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور عمران خان سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم رہنماؤں سے بھی ملے نتیجہ کیا نکلا انہیں مایوس اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے کہا پی ڈی ایم کی طرف سے یوسف رضا گیلانی ،نوید قمر،فریال تالپور ،خواجہ سعد رفیق اور عمران خان کی جانب سے اسد عمر،فوار چودھری،سینیٹر علی ظفر پیش ہوتے اور مذاکرات کرتے رہے ان نشستوں کا نتیجہ بھی مایوس کن ہی نکلا۔یہی وجوہات ہیں جس کے باعث سیاسی ڈائیلاگ تعطل کا شکار ہیں۔عمران خان پی ڈی ایم کو سیاسی حریف کی بجائے ذاتی دشمن سمجھتا ہے اور پی ڈی ایم  والے بھی عمران خان کو انتہائی نا پسندیدہ سمجھنے لگے ہیں ۔سیاسی لڑائیاں اب ذاتیات میں تبدیل ہوگئی ہیں اسی وجہ سے کوئی بھی بڑا موضوع لے کر سیاسی مذاکرات کیلئے  ملک کے اندر سیاسی ماحول نہیں بن رہا۔جس کے نتیجے میں ملک کا نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ ملکی معاشی نظام تباہی کی طرف جارہا ہے۔

آئی ایم ایف نے ہمیں نویں سالانہ پروگرام میں شامل کرکے تقریبا دوبارہ نکال دیا ہے ہمارا آئی ایم ایف سے سٹاف لیول تک کا معاہدہ نہ ہوسکا اب آئی ایم ایف کا دسواں اور گیارواں پروگرام شروع ہونے والا ہے۔بجٹ پیش ہونا ہے خزانہ خالی ہوتا جارہا ہے روز روز ملک ڈیفالٹ کی افواہیں چلائی  جاتی رہی ہیں تو ملکی معاملات کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی ڈائیلاگ کیے جائیں۔سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنان کی اصلاح کریں بلاوجہ سیاسی رہنماؤں کی زندگی اجیرن نہ بنائی جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن