عدلیہ پر قانون سازی، حکومت کو سپریم کورٹ سے مشاوت کرنی چاہیے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات اور ازخود نوٹس کے طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق قانون 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔8 رکنی لارجربنچ نے سماعت کی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان سے استفسار کےا کہ آپ نے کچھ کہنا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دےا کہ ہمارے دو قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل (سپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے)، دوسرا چیف جسٹس کے اختیارات اور آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ازخودنوٹس کے طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے(سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے)، دونوں قوانین میں نظر ثانی اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں۔ دونوں قوانین میں سے کس پر انحصارکرنا ہے اس پر کسی ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر کا سیکشن 4 اور نظر ثانی قانون کے سیکشن6 میں مماثلت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا دونوں قوانین میں ہم آہنگی کے لیے پارلیمنٹ کو دیکھنا ہے، آپ کی اس تجویزکا خیر مقدم کرتے ہیں، خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت ایک جیسے قوانین میں ترمیم کر رہی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر دیکھنا ہوگا کہ اگر قوانین ایک جیسے ہیں تو اس کو حل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر قوانین آپس میں مماثلت رکھتے ہیں تو فل کورٹ سے متعلق درخواستیں سننا وقت کا ضیاع ہو گا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ کو یہ معاملہ نہیں بھیجیں گے۔ پارلیمنٹ اور حکومت اگر کوئی تجویز دیں تو اس پر غور کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ، دوسرا طریقہ کار یہ بھی ہے کہ ہم بھی کیس جاری رکھیں اور پارلیمنٹ بھی جاری رکھے۔ پھر دیکھتے ہیں زیادہ جلدی کون کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حکم کیا کہ آپ حکومت سے ہدایات لےں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی جو نہیں دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کاررروائی کے منٹس عدالت کو فراہم کرنے سے انکارکیا، لیکن ہم نے پارلیمنٹ کی کارروائی ان کی ویب سائٹ سے لے لی ہے۔ پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ خوش قسمتی سے تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے، ہم آپس میں مشاورت کر کے بتائیں گے، سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔ دوسری جانب (ق) لیگ نے جواب میں کہا ہے کہ ہے ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں اضافہ ہو گا کیونکہ ایکٹ کا سیکشن4 سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو وسیع کرتا ہے، ایکٹ کا سیکشن 3 عدلیہ کے 184(3) کے اختیار کے استعمال کو کم نہیں کرتا۔