• news

قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا نادر موقع

سٹیٹ بنک کی جانب سے زرمبادلہ کے مجاز ڈیلرز کو کریڈٹ کارڈ کی ادائیگیوں کے لئے انٹر بنک سے ڈالر خریدنے کی اجازت دئیے جانے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر پر دبائو کم ہو گیا اور ڈالر 13 روپے گر 298 روپے پر آ گیا۔ قبل ازیں بنکوں پر پابند ی کے باعث کریڈٹ کارڈ کی ادائیگیاں اوپن مارکیٹ سے کی جا رہی تھیں جس کے باعث اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ گزشتہ روز انٹربنک سے ڈالر خریدنے کی اجازت ملنے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 285.38 تک آ گئی۔ 
فاریکس ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق دیگر کرنسیوں میں یورو کی قدر 19 روپے کم ہو کر 313 روپے اور برطانوی پائونڈ کی قدر کم ہو کر 365 روپے پر آ گئی۔ اسی طرح سعودی ریال کی قدر بھی پانچ روپے 20 پیسے اور یو اے ای درہم کی قدر بھی اتنی ہی کمی ہوئی۔ 
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان کا کہنا ہے کہ انٹربنک سے ڈالر خریدنے کی اجازت سے متعلق وزارت خزانہ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد گزشتہ روزکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کی قیمت میں مجموعی 27 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر ہم حکومت کو اگلے دو سال تک ماہانہ ایک ارب ڈالر دے سکتے ہیں۔ ان کے بقول ڈالر کا ریٹ ابھی مزید کم ہو گا۔ دوسری جانب مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت میں بھی 5400 روپے کی کمی ہوئی ہے جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت میں گزشتہ روز پچاس روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں گزشتہ روز کی کمی کے نتیجہ میں آٹے سمیت متعدد اشیائے خوردنی کے نرخ بھی خاطر خواہ حد تک کم ہوئے جبکہ ایل پی جی بھی 37.13 روپے فی کلو سستی ہو گئی۔ اسی طرح چکی مالکان نے بھی آٹا دس روپے کلو سستا کر دیا۔ 
گزشتہ روز وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے پاکستان کے قرض پروگرام کی بحالی کے لئے حیلے بہانے کرنے والے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو یہ ہلکا سا پیغام دیا تھا کہ اس نے پاکستان کے لئے اپنا قرض پروگرام بحال نہ کیا جس کا آئی ایم ایف چیف کی جانب سے پاکستانی حکام سے بات چیت کے دوران عندیہ بھی دیا گیا تھا، تو ہمارے پاس بجٹ کی تیاری کے لئے ہمہ وقت بی پلان موجود ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے یہ اشارہ ملتے ہی سٹاک مارکیٹ میں خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ جتہیں بھرتے ڈالر کو نہ صرف بریک لگی بلکہ اس کا ترقی معکوس کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ اگرچہ اب عائشہ غوث پاشا کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کا عندیہ دیا گیا ہے اور انہوں نے ٹیکس فری بجٹ بھی اسی تناظر میں ناممکنات میں شامل کیا ہے تاہم آئی ایم ایف کی شرط پر ڈالر کی صرف اوپن مارکیٹ سے خریداری کے حوالے سے لگائی گئی پابندی ختم ہوتے ہی جس تیز رفتاری کے ساتھ ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں نیچے آیا اور دوسری کرنسیوں کی قدر میں بھی نمایاں کمی ہوئی وہ اس امر کا ٹھوس ثبوت ہے کہ آئی ایم ایف اور اس کی ڈوریاں ہلانے والی عالمی قوتیں پاکستان کی معیشت کی ترقی روکے رکھنے اور اس بنیاد پر اس کی سلامتی اور خودمختاری پر سوال اٹھانے کے لئے اس کے دشمن بھارت کو موقع فراہم کرنے کی نیت سے ہی پاکستان کو آئی ایم ایف کے سود در سود قرض کے گھن چکر میں دھنسائے رکھنا چاہتی ہیں۔ 
گزشتہ سال اسی بدنیتی کے تحت آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی حکومت کے بعض اقدامات کو جواز بنا کر پاکستان کے لئے قرض پروگرام معطل کیا اور پھر اس کی بحالی کے لئے پاکستان کی نئی مخلوط حکومت سے اپنے ناروا اور ناجائز تقاضوں کا طْومار باندھ کر ایڑیاں رگڑوانا شروع کر دیں اور ہمارے حکمران مجبورِ محض بن کر آئی ایم ایف کی ہر شرط پر عملدرآمد کرتے اور عوام پر ناقابلِ برداشت مہنگائی مسلط کرتے رہے۔ نتیجتاً عوام میں اضطراب بڑھا تو پاکستان کو افراتفری اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کا ایجنڈہ رکھنے والی پی ٹی آئی کو بھی اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کا موقع مل گیا جو درحقیقت ملک دشمنوں کا ایجنڈہ ہے۔ 
پاکستان کو اس مشکل صورت حال سے آئی ایم ایف کے شکجے سے خلاصی پا کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ اس وقت جبکہ حکو مت کو عوام دوست بجٹ کی تیاری کا چیلنج درپیش ہے جس کے بغیر حکومتی اتحادی جماعتوں کے لئے اگلے انتخابات میں عوام کے پاس جانا مشکل ہو گا۔ اس لئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینا ہی حکومت کا مطمعٔ نظر ہے جس کے لئے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کا قرض پروگرام روک کر حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششں کی گئی تاہم گزشتہ روز حکومت کے محض ڈالر کی بذریعہ انٹربنک خریداری کی اجازت دینے کے صرف ایک فیصلہ سے سٹاک مارکیٹ اور قومی معیشت میں جو خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئیں اس سے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے مستقل نجات دلانے کا راستہ ہی کھلتا نظر آیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خزانہ نے آئی ایم ایف کے متبادل جس بی پلان کا اشارہ دیا، ڈالر کی بذریعہ انٹربنک خریداری نھی اسی سے متعلق ہے جس پر بوستان خان نے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ اس اقدام سے پاکستان کو فاریکس اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آئندہ دو سال تک ماہانہ ایک ارب ڈالر ملتے رہیں گے۔ 
اس کے علاوہ پلان بی برادر دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل ہونے والے بیل آئوٹ پیکجز پر بھی مبنی ہو سکتا ہے جو ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے مستقل نجات دلانے میں معاون بنے گا اور ہم اپنی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے اور عوام کو مہنگائی کے گھن چکر سے نجات دلانے کے قابل ہو سکیں گے۔ 
اس تناظر میں حکومت کو اب دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے اور اس کے حقارت بھرے قرضوں پر قومی بجٹ کی بنیاد رکھنے کے بجائے اپنے بی پلان پر عملدرآمد کرنے کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ بے شک قدرت نے ہمیں قومی قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہے جنہیں مربوط حکمتِ عملی کے تحت بروئے کار لایا جائے تو ہمیں آئی ایم ایف سمیت کسی بھی مالیاتی ادارے کا دستِ نگر نہ ہونا پڑے۔ حکومت کے لئے یہی موقع ہے کہ وہ اگلے مالی سال کے لئے قومی بجٹ کی بنیاد پلان بی پر استوار کرے جو کسی خودمختار زندہ قوم کا طرہ ٔامتیاز ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن