پاکستان کے لیے متبادل نظام
پاکستان کے پڑھے لکھے عوام دوست افراد میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ انگریزوں کا رائج صدیوں پرانا ریاستی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ نظام کے ٹوٹنے پھو ٹنے کی وجہ سے ریاستی ادارے زوال پذیر ہو چکے ہیں۔ ریاست کو سنگین اور حساس بحران سے نکالنے کے لیے لازم ہے کہ گزشتہ 75 سالوں کے آئینے میں ریاستی نظام کی تشکیل نو کی جائے۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنما علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان فریڈم موومنٹ کے چیئرمین ہارون خواجہ نے نئے ریاستی نظام کے سلسلے میں سنجیدہ کام کر رکھا ہے۔ سٹیٹ بنک کے سابق گورنر معیشت اور گورننس کے ممتاز ماہر نے بھی ادارہ جاتی اصلاحات کے بارے میں کئی کتب لکھی ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ’پاکستان اکنامک چیلنجز اینڈ سلوشنز‘ زیر مطالعہ ہے۔ سٹیٹس کو کی حامی عوام دشمن اقلیت اپنے مفادات کے لیے اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتی۔
پاکستان جاگو تحریک نے متبادل نظام کا خاکہ مرتب کیا ہے جس پر سنجیدہ توجہ اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابی نظام کو سرمایہ الیکٹیبلز ہارس ٹریڈنگ اور بلیک میلنگ سے پاک کرنے اور حقیقی عوامی سماجی پارلیمانی جمہوریت کے لیے لازم ہے کہ وزیراعظم کو عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب کیا جائے اور وہ عوام کو ہی جواب دہ ہو۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت چار سال کی جائے۔ دو سال کے بعد قومی اسمبلی کے اراکین اگر سمجھیں کہ وزیراعظم کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں رہا تو اراکین اسمبلی دو تہائی اکثریت سے قرار داد منظور کرکے وزیر اعظم کو آئینی ریفرنڈم کے ذریعے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا کہیں۔ اگر وزیراعظم عوام کا اعتماد حاصل نہ کرسکے تو مڈ ٹرم انتخابات کروائے جائیں۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ہر صوبے سے پانچ فیصد ووٹ حاصل کرے۔ انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ عوام کو معیاری گورننس فراہم کی جا سکے اور ایک صوبے کی بالادستی کا تاثر ختم ہو سکے۔
انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جائیں تاکہ عوام الیکٹیبلز کی بجائے سیاسی جماعتوں کو ان کی منشور کی روشنی میں ووٹ دیں اور سیاسی جماعتیں ووٹوں کے تناسب سے اراکین اسمبلی نامزد کریں۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کوٹا مقرر کیا جائے تاکہ اسمبلیوں میں تمام طبقات کی نمائندگی ہوسکے ۔ اس طرح روایتی خاندانوں کی بالادستی ختم ہو جائے گی۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اشرافیہ کی بجائے سماجی جمہوریت وجود میں آئے گی۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 62 اور 63 کے مطابق اراکین اسمبلی کی اہلیت دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے غیر جانبدار آزاد اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے جو امیدواروں کی تفصیلی سکروٹنی کرے۔ بلدیاتی انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی کرائے جائیں ۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے سلسلے میں آئین میں شیڈول شامل کیا جائے تاکہ بلدیاتی انتخابات ہر چار سال کے بعد لازمی کروائے جاسکیں ۔
قومی مالیاتی کمیشن کی طرح صوبائی مالیاتی کمیشن بھی تشکیل دیا جائے جو مقامی حکومتوں کو مالی وسائل منتقل کرنے کا پابند ہو۔ مقامی حکومتوں کو آزاد خودمختار بنایا جائے تاکہ عوام کے 80 فیصد مسائل ان کے دروازے کی دہلیز پر حل کیے جا سکیں۔ ہر یونین کونسل میں ایک جج نامزد کیا جائے جو عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کر سکے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے ہر یونین کونسل میں معیاری سکول اور ہسپتال تعمیر کیے جائیں۔ ہر یونین کونسل میں نوجوانوں کی فنی تربیت کے لیے ہنر سینٹر تعمیر کیا جائے ۔ سیاسی جماعت کے مرکز سے لے کر یونین کونسل تک ک الیکشن کمیشن کی نگرانی میں پارٹی انتخابات کرائے جائیں اور پارٹی کے کارکن عہدیدار منتخب کریں۔ عدلیہ کو شفاف اور فعال بنانے کے لیے جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن قائم کیا جائے جو میرٹ اور صرف میرٹ پر ٹیسٹ اور انٹرویو لے کر ججوں کی نامزدگی کرے۔ سول مقدمات کے لیے تین ماہ اور فوجداری مقدمات کے لیے چار ماہ کی مدت مقرر کی جائے۔
پاکستان کا معاشی نظام مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ایک جانب قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ غریب عوام ٹیکس دیتے ہیں جبکہ اشرفیہ ان ٹیکسوں پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی ہے۔ ٹرکل ڈاؤن کی بجائے باٹم اپ معاشی سسٹم جاری کیا جائے۔ ایسی معاشی پالیسی وضع کی جائے جس کے نتیجے میں مساوی اور شراکتی ترقی ہو سکے۔ نوجوانوں کو روزگار یا بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ دیہاتی اور شہری جائیداد کی حد مقرر کی جائے۔ زرعی آمدن پر ٹیکس وصول کیا جائے۔ مہنگائی کے خاتمے کے لیے گورننس کو بہتر بنایا جائے۔ ذخیرہ اندوزوں سمگلروں اور ناجائز منافع خوروں کو کڑی سزائیں دی جائیں۔ وفاقی حکومت کے اخراجات کم کرنے کے لیے ڈویژنوں اور محکموں کی تعداد کم کی جائے اور دو تہائی سرکاری ملازمین کو سروس سر پلس پول میں رکھا جائے تاکہ ان کے الاؤنسز پر اٹھنے والے اخراجات بچائے جا سکیں۔
سرکاری ملازمین کو میرٹ پر تعینات کیا جائے ان کو صرف تنخواہ اور چھوٹے گھر دیے جائیں وی آئی پی کلچر ختم کردیا جائے۔ کوئی سرکاری افسر ایک ہفتہ سے زیادہ سرکاری فائنل اپنے پاس نہ رکھے۔ پولیس کو عوام دوست بنایا جائے ان کی بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں 2019ء میں جو پولیس ریفارمز تیار کی گئیں ان پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے۔ سادگی اور کفایت شعاری کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔ پورے پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کیا جائے۔ اردو زبان کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دیا جائے۔ شفاف اور یکساں احتساب کے لیے ایک قابل اعتبار ادارہ تشکیل دیا جائے جو سیاستدانوں بیوروکریٹس ججوں اور جرنیلوں کا احتساب کر سکے۔ ادارہ جاتی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ آزادی، دفاع اور سلامتی کے تقاضوں پر سمجھوتہ کیے بغیر فوج کا سائز اور انتظامی اخراجات کم کرنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی جائے۔ آبادی میں بڑھتے ہو ئے اضافے کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ پرانے فرسودہ ناکارہ نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان جمود اور زوال کا شکار رہے گا۔