• news

پاکستان فوج کا جنم

پچھلی دو قسطوںمیںبتایا جا چکا ہے کہ فوج کی تقسیم ایک بہت ہی نازک ،حساس اور پیچیدہ معاملہ تھا۔یہ فوج دوسری جنگ عظیم میں ایک جسم کی طرح لڑی اور شاندار کارگردگی دکھائی ۔ اسی لیے اِسے ’برطانوی تاج کا ہیرا‘ کے لقب سے نوازا گیا۔بہت سے سینئر ہندو آفیسرز اس شاندار فوج کی تقسیم نہیں چاہتے تھے ۔ اس مقصد کے لیے برگیڈئیرکری اپا، میجر بھگت (وکٹوریہ کراس) اور کچھ دیگرسینئر آفیسرزجو کیمبرلے سٹاف کالج میں کورس کر رہے تھے نے مل کر شاہِ برطانیہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ کچھ آفیسرز نے قائداعظم کو بھی کنونس کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔ہندو افسران کو جب فوج کی تقسیم کا یقین ہوگیا تو محکمہ جنگ کے متعصب ہندو سیکرٹری مسٹر چندو لال نے تمام مسلمان یونٹس کو دور دور پھیلا دیا اور پنجاب میں سکھ یونٹس تعینات کر دیں تاکہ وہ سکھ اور ہندوو¿ں کی حفاظت کر سکیں اور مسلمانوں کا جی بھر کر خون بہائیں۔ جو انھوں نے کیا ۔
فوج کی تقسیم کا فیصلہ تو مئی1947ءمیں ہی ہو گیا تھا۔ اس فیصلے کے مطابق، 4 لاکھ فوج میں سے دو لاکھ ساٹھ ہزار بھارت کے حصے میں آئی اور ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستان کے حصے میں لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مکار چند و لال نے پاکستان کے حصے میں آنے والی افواج کو مشرقی حصے میں دور تک پھیلائے رکھا۔ کچھ یونٹس تا حال برما اور ہانگ کانگ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس لیے ان کا فوری طور پر مغربی پنجاب میں آنا ممکن نہ تھا۔
 اس پلاننگ اور سازش کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ افواج ہجرت کرتے وقت پاکستان میں ہوتیں تو مسلمان قافلوں کی حفاظت ہو سکتی تھی۔ امن و امان کی صورتحال بھی اتنی خراب نہ ہوتی۔ ان افواج کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے محض چند ہفتے پہلے آنے کی اجازت ملی اور جب تک یہ لوگ یہاں پہنچے لاکھوں مسلمانوں کا خون ہو چکا تھا۔ مسلمان فوجی افسران کی حالت بہت خراب تھی۔ پاکستان کو تقریباً چار ہزار افسران کی ضرورت تھی جبکہ اس کے حصے میں محض دو ہزار کے قریب آفیسر ز آئے اور یہ بھی تمام جونیئر درجے کے آفیسرز تھے۔ نئ
ے ملک کے لیے نئی فوج منظم کرنے کے لیے تجربہ کار اور سینئر آفیسرز کی سخت ضرورت تھی جبکہ ہمارے حصے میں کرنل سے لے کر جنرل تک کے عہدے کے محض 56 آفیسر ز آئے جن میں شاید صرف ایک یا دو جنرل تھے۔ ٹیکنیکل محکموں یعنی میڈیکل، ای ایم ای، انجینئرز، آرڈنینس، سپلائی وغیرہ کے لیے محض چند آفیسرز ملے اور جوانوں کی تعداد بھی معمولی تھی، لہٰذا مجبوراً 500 انگریز آفیسرز مستعار لینے پڑے۔ ان میں پاکستان فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل فرینک میسروی اور ڈپٹی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی شامل تھے۔ پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔
بٹوارے کے وقت برٹش انڈین آرمی میں 29 انفنٹری رجمنٹس تھیں اور ہر رجمنٹ میں کئی عدد بٹالین تھیں ان 29 رجمنٹس میں سے پاکستان کے حصے میں محض آٹھ رجمنٹس آئیں۔ 20 آرمڈ کور (ٹینک) رجمنٹس تھیں جن میں سے 6 پاکستان کو ملیں اور اسی طرح 48 تو پخانے کی رجمنٹس تھیں جن میں سے 8 ہمارے حصے میں آئیں۔ یہ تقسیم چونکہ مذہبی بنیاد پر کی گئی تھی اس لیے یہ رجمنٹس بھی لنگڑی لولی اور نامکمل شکل میں ملیں مثلاً اس وقت فوجی تنظیم تین بنیادوں پر قائم تھی۔ اول ہندو یونٹس جیسے جاٹ، سکھ، گورکھے، کما¶ں، گرینڈ یر، راجپوت وغیرہ اور یہ تمام کی تمام مکمل صورت میں ہندوستان کو ملیں۔ دوم مسلمان انفنٹری یونٹس جیسے فرنٹئیر فورس اور بلوچ رجمنٹس وغیرہ لہٰذا یہ پاکستان کوملیں۔ تیسری صورت جیسے پنجاب رجمنٹس یا کشمیر انفنٹری وغیرہ میں ملی جلی نفری تھی جس میں مسلمان کمپنیاں اور باقی مذاہب کی کمپنیاں بھی تھیں۔ ان میں سے مسلمان کمپنیاں پاکستان کے حصے میں آئیں اور باقی بھارت کے حصے میں۔ اسی طرح ٹینک رجمنٹس (رسالہ) میں ملی جلی کمپنیاں تھیں، لہٰذا ان کی تقسیم بھی اسی طرح ہوئی۔ کسی یونٹ کے ہمیں محض چند سپاہی ملے اور کہیں چند جے سی اوز (صو بیدار، جمعدار وغیرہ) مکمل تنظیمی یونٹس نہ ہونے کی وجہ سے اکاد کا لوگ کسی کام کے نہ تھے۔ ان یونٹوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا تھا جس کے لیے تجربہ کار آفیسرز اور مختلف ٹریڈز میں مہارت رکھنے والی افرادی قوت درکار تھی جو حاصل نہ تھی۔ 
ہمارے آفیسر ز نے جہاں کہیں بھی خدمات سرانجام دے رہے تھے،حتی المقدور کوشش کی کہ ضرورت کی چیزیں جہاں تک ممکن ہو ساتھ لائی جائیں مثلاً مرحوم جنرل ٹکا خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اس وقت میجر تھے اور انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون میں پلاٹون کمانڈر تھے۔ وہ اور تو کچھ ساتھ نہ لا سکے لیکن آتے ہوئے ٹریننگ فائلز ساتھ لائے اور 1948ءمیں جب پاکستان ملٹری اکیڈمی قائم کی گئی تو یہ ٹریننگ فائلز بہت مددگار ثابت ہوئیں اور ان فائلوں کی مدد سے فوری ٹریننگ ممکن ہوسکی۔کچھ اور آفیسرز اور خصوصاًکلرکس یونٹس کی ٹریننگ فائلزاور ایکسرسائزز کی تفاصیل ساتھ لائے ۔یہ فائلز بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوئیں اور انھیں سامنے رکھ کر انفنٹری یونٹس کے لیے نئی تربیتی فائلز تیار کی گئی لیکن سب سے بڑا مسئلہ ٹیکنیکل یونٹس مثلاً ای ایم ای، سگنل ، انجینئر وغیرہ میں پیدا ہوا لیکن شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ انگریز آفیسرز کے تعاون سے کسی نہ کسی طرح یہ مسئلہ بھی حل کر لیا گیا۔ہمیں ان آفیسرز کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان آفیسرز نے اِس سلسلے میں بھارت میں رہ جانے والے اپنے دوستوں سے بھی کافی مدد لی اور بالآخر یہاں کامیابی نصیب ہوئی۔ (جاری)

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن