• news

 پیر ‘ 15 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 5 جون 2023ئ

مسلم لیگ (نون) کا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں سے اعلان لاتعلقی 
عام طور پر جب گھر والے کسی فرد سے تنگ ہوں تو اسکے خلاف اشتہار لاتعلقی دیتے ہیں۔ مگر سب جانتے ہیں یہ وقتی ابال ہوتا ہے تاکہ اس شخص کے غلط کاموں سے خود کو بری الذمہ قرار دیں تو لگتا ہے یہی کچھ سیاسی میدان میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے دوسری جماعت چھوڑنے والے بڑے بڑے رہنماﺅں سے اعلان لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ (نون) ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ ان رہنماﺅں کے پارٹی چھوڑنے والے عمل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ بعد میں وہی ہو جو ایسے اعلانات کا ہوتا ہے کہ سب گھر والے اور وہ اعلان لاتعلقی کا شکار سب اکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ بیک وقت تین گروپ ان کو دست و بازو کشادہ کر کے گلے لگا رہے ہیں۔ ایک جہانگیر ترین گروپ ہے جو موثر بھی نظر آ رہا ہے، دوسری پیپلز پارٹی ہے جس میں کئی رہنما شامل ہوئے ہیں۔ تیسرا گروپ وہ ہے جو حال ہی میں سامنے آیا ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کا فاورڈ گروپ بنانا چاہتے ہیں۔ اب جو پی ٹی آئی والے کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں جانا چاہتے وہ اس گروپ میں شامل ہو کر اپنی طاقت دکھا سکتے ہیں۔ چوتھا گروپ ق لیگ کا ہے جہاں اکا دکا کچھ رہنما شامل ہو رہے ہیں۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ اکثر رہنما پریس کانفرنس میں اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم نے سیاست چھوڑ دی ہے یا سیاسی عمل سے کچھ عرصہ کیلئے دور رہیں گے۔ اندر خانہ وہ بھی مختلف گروپوں سے رابطوں میں مصروف ہیں۔ ٹھیک ہے یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ مگر ان اعلانات لاتعلقی یا بریک لینے کی آڑ میں 9 مئی کے سانحہ ملوث کسی بھی کردار کو معاف کرنا یا ان سے درگزر کرنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔ اس سانحہ میں ملوث کسی کو معاف کرنا شہدا کے خون سے غداری ہو گا۔
٭٭٭٭٭
ایبٹ آباد میں ڈاکٹر نے خاتون کے بازو کی بجائے آنکھ کا آپریشن کر دیا 
صرف یہی نہیں بلکہ آپریشن کے بعد باہر آ کر گھر والوں کو مولانا طاہری القادری کی طرح پرجوش انداز میں مبارک ہو مبارک کہتے ہوئے آپریشن کامیاب ہونے کی مبارکباد بھی دی۔ تھوڑی دیر بعد جب حقیقت سامنے آئی ہو گی تو تب کیا ہو گا۔ ڈاکٹر نے بھی مولانا کی طرح سپاٹ چہرہ بنا کر خاموشی اختیار کر لی ہو گی یا اِدھر اُدھر کی ہانکتے ہوئے مریض کے گھر والوں کو تسلی دی ہو گی کہ فکر نہ کریں اب مریض کو کبھی آنکھ کا کوئی مسئلہ نہ ہو گا ہم نے آنکھ مکمل درست و تندرست کر دی ہے۔ رہا مسئلہ بازو کا جس کا آپریشن ہونا ہے دیکھتے ہیں اس کا کیا بنے گا۔ کیا ڈاکٹر اور ہسپتال والے ہرجانے کے طور پر اس کا آپریشن فری کر دیں گے تاکہ حساب برابر رہے یا پھر اس کی علیحدہ سے فیس جمع کرانا ہو گی مریض کو اور اس کے گھر والوں کو ایک نئے عذاب سے حساب کتاب سے گزرنا ہو گا۔ کیا ایسے ڈاکٹر یا ہسپتال کے خلاف قانونی چارہ¿ جوئی کرنا درست نہیں تاکہ وہ ہرجانہ ادا کریں اور تمام اخراجات جو آپریشن میں ہوئے ہیں‘ برداشت کریں اور آئندہ ایسی سنگین غلطی سے تائب ہو جائیں۔ ہمارے ہاں بے چارے غریب ایسے کو قدرت کا لکھا سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں جبکہ یہ قدرت کا لکھا نہیں‘ غفلت کا بدترین نمونہ ہے۔ اب وہ مریضہ کس کرب سے گزر رہی ہو گی جس کے صحیح عضو کا آپریشن کر دیا گیا اور بیمار عضو ویسے ہی تکلیف میں رہنے دیا۔ اگرچہ ایسا اتفاقیہ ہی ہوتا ہے مگر کیا کریں ڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ اسی لئے ڈرائیور اور ڈاکٹر کی غلطی پر زیادہ غصہ آتا ہے جن کی وجہ سے کسی کی جان بھی ضائع ہو سکتی ہے وہ عمر بھر کےلئے معذور بھی ہو سکتا ہے ۔ شکر ہے ایبٹ آباد کے اس ہسپتال میں لواحقین نے کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا ورنہ بات بگڑ سکتی تھی۔ 
٭٭٭٭٭
مردم شماری کے نتائج پر خواجہ سراﺅں کو بھی تشویش 
جی یہ تشویش ویسے ہی ہے جس طرح جماعت اسلامی والوں کو کراچی میں مردم شماری کے نتائج پر ہے۔ خواجہ سرا کہہ رہے ہیں کہ ان کی تعداد بہت کم شمار کی گئی ہے۔ خاص طور پر کراچی میں ان کی آبادی بہت کم دکھائی گئی ہے جبکہ چشم بددور کراچی میں تو ان کی تعداد دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ سڑکوں پر چوراہوں میں‘ پارکوں میں شہر کے تجارتی مراکز ہوں یا تفریحی مراکز جہاں نظر ڈالیں خواجہ سرا نہایت خوبصورتی سے بن ٹھن کر کھڑے ہونگے یا بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ویسے اگر ان ڈیلی ویجر خواجہ سرا بننے والوں کو ہی شمار کیا جائے تو واقعی ان کی گنتی بہت زیادہ نکلے گی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خواجہ سراﺅں نے صرف کراچی کا ہی گلہ کیوں کیا پورے پاکستان میں شام ڈھلے جس طرح یہ مخلوق رونق بازار بنی نظر آتی ہے۔ اس حساب سے تو ہر شہر میں ان کی وافر آبادی نظر آتی ہے۔ ان کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد لاکھوں سے بھی باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں اگر پیدائشی خواجہ سراﺅں کی تعداد دیکھی جائے تو وہ واقعی بہت کم ہے۔ انکے برعکس یہ جو لوگ شوقیہ ہیجڑے اور کھسرے بنے پھرتے ہیں۔ ان کی تعداد البتہ بہت زیادہ ہے۔ شاید یہی شور کر رہے ہیں۔ اکثر اوقات پولیس جب چھاپے مارتی ہے تو پکڑے جانے والے خواجہ سراﺅں میں اکثریت لڑکوں کی نکلتی ہے جو خواجہ سراﺅں کا بھیس بدل کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں یا غلط کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ اب ان کو تو مردم شماری والے بھی تلاش نہیں کر سکتے بھلا ان کو کیسے خواجہ سراﺅں میں شامل کر کے ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اب یہ مسئلہ خود خواجہ سرا ہی حل کر سکتے ہیں۔ مردم شماری والے اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اچھا بھلا شخص خود کو خواجہ سرا درج نہیں کرا سکتا۔
٭٭٭٭٭
قاسم کے ابا اور مریم کے ابو کی نئی گردانیں 
دروغ برگردن راوی میڈیا پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا نام لینے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ خدا جانے ایسا کون کہتا ہے۔ کیا نام لینا گنا ہے۔ اس پر تو اکبر الہ آبادی کے شعر کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے ”کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں“ 
آج کل بھی ہندوستان میں ابھی تک خدا کا نام لینے کے جرم میں مسلمانوں کو سرعام قتل کیا جاتا ہے۔ مساجد گرائی جاتی ہیں مگر پاکستانی میڈیا پر عمران کے نام پر پابندی کے بعد جو نیا مشغلہ لوگوں کے ہاتھ آیا ہے وہ بھی دلچسپ ہے۔ میڈیا پروگراموں میں کئی سنجیدہ لوگ بھی انہیں قاسم کے ابا کہہ کر پکارتے ہیں‘ ان کا تذکرہ کرتے ہیں اسکے جواب میں مخالف گروپ والے بھی نواز شریف کا نام لینا گناہ تصور کرتے ہوئے حساب برابر کرتے ہوئے انہیں مریم کے ابا کہہ کر پکارتے ہیں ۔ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں قاسم کے ابا اور مریم کے ابو کی نئی سیاسی اصطلاحات نے ہماری سیاست کو ایک نئی شگفتگی عطا کی ہے۔ کسی زمانے میں بچوں کی کثرت سے بے نیاز ان کی ماں کی تاش میں دلچسپی پر ایک گیت مشہور ہوا تھا وہ بھی اسی طرح مزاحیہ سا تھا۔ 
جس طرح آج کل ہماری سیاست میں ہو رہا ہے‘ اس میں بے چارہ باپ کچن سنبھالتے ہوئے بچوں کو سنبھالتا پھرتا ہوا کہتا ہے۔ 
منے کی امی تو بڑی نکمی 
تیری جان کو بچے روتے ہیں 
تو کھیلے رمی 
اس کے جواب میں بیگم صاحبہ کہتی ہے 
منے کے ابا تم بھول کے وعدہ 
یہ لائن لگا دی بچوں کی 
کیا ملا ہے فائدہ 
تو جناب اب قاسم کے ابا ہوں یا مریم کے ابو ان دونوں کی وجہ سے ہی ہماری سیاست میں گہما گہمی نظر آتی ہے۔ بس ذرا اس میں بلاول کے پاپا کا تڑکا بھی لگ جائے تو ہانڈی مزیدار ہو سکتی ہے۔ ابا ابو اور پایا کا حسین امتزاج بالآخر عوام کو باپ تسلیم کرتے ہوئے ان کی مرضی سے فیصلے کرنے پر خودبخود مجبور ہوں گے کیونکہ جمہوریت اگر ماں ہے تو عوام بھی باپ ہوتے ہیں۔ انہی کے ووٹوں یعنی مرضی سے امی یعنی جمہوریت گھر (ملک) میں قدم رنجہ فرماتی ہے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن