منگل ‘ 16 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 6 جون 2023ئ
فرانسیسی سائنسدان کی جون (ماہ رواں) میں زلزلوں کی پیشین گوئی
ایک تو خدا جانے یہ سائنسدانوں کو ہم سے کیا دشمنی ہے کہ آئے روز جب دیکھو ایسی ایسی پیشین گوئیاں کر کے ہماری بچی کھچی جان نکالنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہاں کیا کم ہمارے ہاں زلزلے کی کیفیت طاری ہے جہاں دیکھو پورا نظام سیاسی ہو یا سماجی معاشی ہو یا تجارتی مسلسل یوں کانپتا نظر آتا ہے گویا زلزلوں کی زد میں ہو۔ یہ جو ملکی سطح پر ہو رہا ہے یہ سب کچھ زلزلے کے جھٹکوں سے کم نہیں۔ عام آدمی کی گھریلو زندگی بھی انہی زلزلوں کی وجہ سے بید مجنوں کی طرح لرزاں و ترساں ہے۔ اب عالمی سائنسدانوں نے جون میں یعنی ماہ رواں میں ایک بار پھر زلزلے وہ بھی شدید کی پخ لگا کر کہا ہے کہ شدید زلزلوں کا خطرہ ہے۔ اب جو رہی سہی نیند آنکھوں میں بچی تھی وہ بھی اڑ گئی ہے۔ شام، ترکی اور خود ہمارے اپنے ہاں زلزلوں نے حال ہی میں جو تباہی مچائی ہے اس کی یادیں ابھی تک ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ اب یہ نیا خوف نچوڑ رہا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان فرینک نے اس سے قبل ترکی اور شام کے حوالے سے پیشین گوئی کی تھی جو سب کے سامنے درست ثابت ہوئی ہے۔ماہرین ارضیات ایسی کسی پیشین گوئی کو درست نہیں مانتے کیونکہ ان کے نزدیک زلزلہ کی پہلے سے پیشین گوئی ممکن نہیں۔ مگر فرینک سیاروں کی پوزیشن اور صف بندی کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ رواں ماہ کے پہلے 10 دنوں میں زلزلہ کا امکان بہت زیادہ ہے۔ حقیقی علم صرف اللہ کریم کے پاس ہے جو کسی بھی وقوعہ کو ہونے سے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ دعا تو یہی ہے کہ اللہ کریم عالم انسانیت پر ان کی بداعمالیوں کے باوجود رحم فرمائے اور خاص طور پر امت مسلمہ کو جو پہلے تباہ حال ہے خاص طور پر اپنی رحمت سے محفوظ رکھے۔
٭٭٭٭٭
شہباز گل نے خود کو امریکہ میں پی ٹی آئی کے ایجنٹ کے طور پر رجسٹر کرا لیا
وہ امریکی نیشنلٹی ہولڈر ہیں۔ یعنی ان کے پاس امریکی شہریت پہلے سے موجود ہیں تو کہیں وہ پاکستان میں امریکی ایجنٹ کے طور پر تو کام نہیں کرتے تھے کیونکہ ہمارے اکثر سیاستدان جو امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں امریکہ سے ٹکرانے کی باتیں کرتے ہیں وہ سب اندر سے امریکہ کے ہی مہرے یا پٹھو ہوتے ہیں۔ امریکہ نے خود انہیں ایسے نعرے لگانے اور بیان دینے پر مامور کیا ہوتا ہے تاکہ عوامی رائے کا پتہ لگایا جا سکے کہ لوگ کیا کہتے اور سوچتے ہیں۔ اب معلوم نہیں پہلے ہی غیر ممالک میں رہنے والے اکثر جذباتی لوگ سیاست کی مکروہ جنگ وہاں بھی پھیلا رہے ہیں جس سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ اب شہباز گل سرٹیفائیڈ (مستند) پی ٹی آئی کے ایجنٹ کے طور پر امریکہ میں پاکستان کو مزید بدنام کرنے کی عالمی سازش کا حصہ بن کر اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیں گے۔ وہ پہلے ہی بدزبانی اور لوگوں کی تضحیک کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ملک کے اندر کی بات اور ہے۔ دیارِغیر میں ملکی بدنامی میں حصہ ڈالنا کسی صورت مناسب نہیں ہماری سیاسی جماعتیں اگر اپنا گند باہر اچھالنے سے پرہیز کریں تو اسی میں سب کا بھلا ہے۔ غیر ممالک سے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی اپیلیں کرنا، انہیں خط لکھ کر پاکستانی معاملات میں مداخلت کے لیے اکسانا، حب الوطنی نہیں۔ ذاتی سیاسی مفادات کے لیے ایسا کرنا واضح کرتا ہے کہ ایسے لوگ غیر ملکی پاکستان دشمن ممالک کے ایجنٹ ہیں۔ پی ٹی آئی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ رہنما امریکہ اور عالمی سامراج کی غلامی سے نجات کے دعوے کرتے پھرتے تھے اب یہ مدد کی اپیلیں کیوں کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
میرپور خاص میں تین روزہ مینگو فیسٹیول کا اختتام
اس بار تو گرمی پڑ نہیں رہی ورنہ جون کا مہینہ یوں نہیں گزرتا ایڑھی تا چوٹی انسان پسینے میں شرابور ہوتا ہے۔ اسی قیامت خیز گرمی سے لو کے چلنے سے آدم پکتے ہیں۔ ان میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ یہ پھلوں کا بادشاہ اس گرم موسم میں تشریف لاتا ہے۔ جس طرح چچا غالب نے کہا تھا
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
اسی طرح آم بھی گرم موسم میں پکتا ہے۔ بازاروں میں آتا ہے اور کروڑوں دلوں کو بھاتا ہے۔ گزشتہ روز میرپور خاص میں 3 روزہ مینگو فیسٹیول منعقد ہوا جس میں 200 اقسام کے آم نمائش کے لیے رکھے گئے۔ ان میں سے 27 اقسام غیر ملکی ہیں۔ یہ غیر ملکی آم دیکھنے میں خوبصورتی کی حد تک تو بہت توانا نظر آتے ہیں مگر ان میں وہ مٹھاس کہاں جو پاکستانی آموں میں ہوتی ہے۔ یعنی ”مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی“ اگر ہماری حکومتیں ایمانداری سے پھلوں کے اس بادشاہ کو اس کا جائز مقام دے کر دنیا میں پاکستان کے پھل کے طور پر متعارف کرائیں تو بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی آموں جیسی مٹھاس کہیں اور نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے باستمی چاول اور گلابی پہاڑی نمک کو عالمی سطح پر اپنا برانڈ قرار دینے میں کامیاب نہیں ہو پائے تو اب اس آم کا مقدمہ کون لڑے جبکہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکی کے صدر اور ان کی اہلیہ کو بھی ملتے وقت آم کے تحفے کا ذکر خاص طور پر کیا۔ ماضی میں نواب زادہ نصر اللہ خان دوست احباب کو اپنے باغات سے اچھے آم چ±ن کر تحفے میں پیش کرتے تھے یہ روایت اس موجودہ گئی گزری فسادی سیاست میں باقی نہیں رہی۔
٭٭٭٭٭
ماحولیات کا عالمی دن ، پلاسٹک آلودگی سے نجات کے عنوان سے منایا گیا
ہم لوگ ماحولیات کے حوالے سے خاصے لاپرواہ رہتے ہیں۔ آلودگی پھیلانا ہو یا گند پھیلانا یہ کام ہم قومی ذمہ داری سمجھ کر احسن طریقہ سے انجام دیتے ہیں۔ اس وقت دیکھ لیں پاکستان کے شہر، گا?ں، پہاڑ، صحرا ، دریا ، جنگل، سمندر میں جا بجا جتنا کچرا پھیلا ہوا نظر آئے گا وہ کسی اور دنیا سے نہیں آیا ہم سب نے خود پھیلایا ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جو ہماری مہربانیوں کی بدولت کچرا کنڈی بننے سے محفوظ ہو۔ گزشتہ روز عالمی یوم ماحولیات منایا گیا۔ مگر ہم اس روز پھر اپنے حصے کا بھرپور کچرا گھروں سے باہر بکھیرتے رہے۔ کیا مجال ہے جو کسی کو اس دن کی مناسبت سے ہی شرم آئی ہو۔ پلاسٹک کے شاپر ز دیکھ لیں کب سے پابندی لگ چکی ہے مگر اس کے باوجود یہ مضر صحت اور ماحول دشمن کاروبار جاری ہے۔ دھڑا دھڑ پلاسٹک کے شاپرز بن رہے ہیں۔ استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں آلودگی پھیلانے میں سب سے بڑا ہاتھ انہی پلاسٹک سے بنی اشیاءکا ہے کیونکہ یہ گھلتی نہیں۔ ہمارے ہاں تو ذرا تیز ہوا چلے تو کیا شہر کیا دیہات کیا صحرا کیا ویرانہ چاروں طرف یہ پلاسٹک کی بنی اشیاءیوں اڑتی نظر آتی ہیں گویا ان کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ان شاپرز پر پابندی کے بعد دیکھ لیں عام سوتی تھیلے یا کاغذی کے لفافے نہایت آرام سے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم ایسا کرنے سے قاصر ہیں وجہ وہی قانون کی خلاف ورزی کرنے کا خناس ہے جو ہمارے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ہمیں کم ز کم پلاسٹک شاپر بیگز کی تیاری اور اس کے استعمال پر پابندی کے قانون پر عمل درآمد کرانا ہو گا۔