شاہ محمود رہا، یاسمین راشد کی بریت چیلنج: مزید 823گرفتاریوں کا فیصلہ
لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی (خبر نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ پنڈی بنچ نے شاہ محمود قریشی کی رہائی کے احکامات دیئے تھے اور عدالت نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے تھری ایم پی او کے آرڈر کالعدم قرار دیئے تھے۔ جسٹس چودھری عبدالعزیز نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے شاہ محمود کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی اور ایم پی او آرڈر کے تحت گرفتار نہ کیا جائے۔ عدالت نے ڈی سی راولپنڈی کے تھری ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دے دیئے اور شاہ محمود قریشی سے کسی قسم کا شورٹی بانڈ جمع کرانے کی ہدایت نہیں کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں جو کچھ ہو چکا اسے چھوڑ دیں، مستقبل میں ایسا نہ ہو، ہر چیز مذاق نہیں ہوتی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شاہ محمود قریشی کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات پیش کرنے پر دائر درخواست نمٹا دی۔ سرکاری وکیل نے مقدمات کی تفصیلات جمع کروائی، جن کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف پنجاب میں مجموعی طور پر 9 مقدمات ہیں، ملتان میں 5، لاہور میں 4 مقدمات درج ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بیٹی گوہر بانو نے درخواست میں موقف اپنایا شاہ محمود قریشی کو نامعلوم مقدمے میں گرفتاری کا خدشہ ہے، استدعا ہے کہ عدالت شاہ محمود قریشی کیخلاف درج تمام مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کا حکم دے، عدالت شاہ محمود قریشی کو ہراساں کرنے سے روکنے کے بھی احکامات صادرکرے۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا پی ٹی آئی کارکنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انصاف کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہے‘ آزمائش اور مشکل وقت ہے۔ آج تحریک انصاف کے چیئرمین سے ملاقات کروں گا جس کے بعد میڈیا سے مفصل بات کروں گا۔ ڈی سی راولپنڈی کے کہنے پر تھری ایم پی او کے تحت میری دوبارہ گرفتاری ہوئی‘ قید میں ہوتے ہوئے کیسے نقص امن کیلئے خطرہ بن سکتا ہوں۔ قید تنہائی میں ایک ماہ گزرا، سوچنے کا موقع ملا۔ دوران قید کسی سے رابطہ نہیں تھا۔ میں تو قید تنہائی میں تھا، میں کس کو ہدایت یا اکسا سکتا تھا۔ پراسیکیوشن کے پاس ٹھوس شواہد نہیں تھے۔ پراسیکیوشن ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا جس پر رہائی ملی۔ قید کے دوران میرے بچوں نے بہت ساتھ دیا‘ میرے اہلخانہ نے کہا کہ ہماری وجہ سے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا‘ میں اس تحریک کا حصہ ہوں۔ اہلیہ کا آپریشن ہوا میں نے بتایا کہ اسلام آباد جانا ہے، میری اہلیہ نے کہا کہ اﷲ کے حوالے، آپ اسلام آباد جائیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو کہتا ہوں آزمائش کا وقت ہے ہمت نہ ہاریں۔ مشکل وقت گزر جائے گا۔ جیلوں سے بے گناہ لوگوں کو رہا کیا جانا چاہئے۔ پنجاب حکومت نے 9 مئی کو لاہور جناح ہاؤس حملہ کیس سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سلطان اصغر نے درخواست دائر کی۔ درخواست میں ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے جناح ہاؤس حملہ کیس کے مقدمہ سے حقائق کے برعکس ڈاکٹر یاسمین راشد کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے جناح ہائوس پر حملہ کرنے والی ریلی کی قیادت کی۔ ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جائے۔ انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے یاسمین راشد کو گلبرگ عسکری ٹاور میں توڑ پھوڑ مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کی اجازت دیدی۔ تھانہ گلبرگ میں سنگین دفعات کے تحت درج مقدمہ میں شامل تفتیش کیا جائے گا۔ پولیس نے یاسمین راشد کو شامل تفتیش کرنے کی استدعا کی تھی۔ عدالت نے یاسمین راشد سے کوٹ لکھپت جیل میں تفتیش کی اجازت دیدی۔ جناح ہاؤس حملہ کیس میں جیوفینسنگ کی بنیاد پر مزید سینکڑوں گرفتاریوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جناح ہاؤس حملہ کیس کی تفتیش میں مزید 823 افراد کی گرفتاری کا ٹاسک ایس پیز کو سونپ دیا گیا۔ پولیس کے مطابق مطلوب افراد کی لوکیشن 9 مئی کو جناح ہاؤس ٹریس ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لوکیشن کے علاوہ مطلوب افراد کی شناخت ہیومن انٹیلی جنس سے بھی کی گئی، گرفتاری کے بعد جناح ہاؤس موجودگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔ مزید گرفتاریوں کا ٹاسک سربراہ لاہور پولیس نے افسروں کو ایک اجلاس میں دیا ہے۔بہاول خان عباسی نے پی ٹی آئی چھوڑ دی، بیان میں کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ مستقبل کا فیصلہ مشاورت کے بعد کروں گا۔