یکم جولائی سے دکانیں رات 8 بجے بند
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) قومی اقتصادی کونسل نے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں اجلاس میں دکانیں اور کمرشل علاقے رات آٹھ بجے بند کرنے، آئندہ مالی سال کے لئے گروتھ کا ریٹ 3.5 مقرر کرنے، ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے کرنے اور فائیو ایز فریم ورک کی منظوری کے ساتھ نوجوانوں کی ترقی کیلئے 100 ارب روپے رکھنے کی منطوری دی ہے۔ افراط زر کا ہدف21 فی صد مقرر کیا گیا ہے جبکہ زراعت کی ترقی کا ہدف 3.5 فی صد کرنے کی منطوری دی گئی ہے۔ اجلاس مین بلوچستان کے وزیر اعلی نے شرکت نہیں کی جبکہ ان کی نمائندگی صوبائی وزیر نے کی۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں توانائی بچت پلان پیش کیا گیا۔ یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں، کمرشل ایریاز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ توانائی کی بچت سے ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ سعودی عرب نے ایک بار پھر 10 لاکھ بیرول یومیہ پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سال کے آخر تک تیل کی قیمتیں ایک بار پھر 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم فیوسل فیول اور تیل کے اوپر انحصار کریں گے تو ہماری معیشت اسی طرح خطرات میں گھری رہے گی۔ تو حکومت کوشش کر رہی ہے کہ دو طرح کے اقدامات کیے جائیں۔ ایک اقدام یہ ہے کہ ہم توانائی کی بچت کریں اور اس کے لیے جو کابینہ نے پیکج منظور کیا تھا کہ انرجی کو بچانے کے لیے دکانوں اور کمرشل سینٹرز کو رات 8 بجے بند ہونا چاہیے، اسی طرح جو لائٹس ہیں، جو پرانے بلب ہیں، ان کو ختم کرکے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کیا جائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی طرح جو گیزرز ہیں، ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے، یہ وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت کرسکتے ہیں۔ کابینہ نے اس حوالے سے فیصلہ کیا تھا لیکن اس میں صوبائی حکومتیں شریک نہیں تھیں تو این ای سی میں ہم اسے دوبارہ اس لیے لے کر گئے کہ وہاں اجلاس میں صوبائی حکومتیں بھی شریک تھیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ اب ہم امید کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں توانائی بچت کا جو پیکج منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کروائیں گی اور ہم اپنے ملک کے لیے توانائی کی بچت میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دیکھیں امریکا، یورپ جیسے بڑے بڑے ممالک جو ہم سے بہت زیادہ خوشحال ہیں، ہم سے بہت زیادہ امیر ہیں، وہ بھی دس دس، گیارہ گیارہ، بارہ، بارہ بجے تک کمرشل ایریاز کھولنے کی عیاشی وہ بھی برداشت نہیں کرسکتے، آپ یورپ میں جائیں تو وہاں بھی 6 بجے، 6 بجے نہیں تو حد ہے کہ 8 بجے تک تمام کمرشل ایریاز بند ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ چین چلے جائیں، ملائیشیا، انڈونیشیا میں چلے جائیں، کوئی ہماری طرح کی غیر ذمے دارانہ طرز زندگی نہیں اپناتا۔ وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی تھی، اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ صوبے مارکیٹس رات 8 بجے بند کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ توانائی پر ہمارے سب سے زیادہ اخراجات آتے ہیں، جن کو قابو کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، اگر ہم ان کو کنٹرول کرلیں گے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موسم گرما میں سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداوار کا ہے، گھریلو صارفین کی طلب پوری کرنے کے لیے بازار رات کو جلد بند کرنے پر سب نے اتفاق کیا اور ہم اس حوالے سے مستقبل میں مزید اہم فیصلے بھی کریں گے۔ فیصلے کی صوبائی وزراء اعلی نے بھی تائید کر دی، جس کے تحت پرانے بلب کی جگہ ایل ای ڈی لائٹس لانے اور گرین انرجی منصوبے پر عملدرآمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزرائے اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ توانائی پالیسی لاگو کی جائے گی اور امپورٹڈ فیول بل کو کم کیا جائے گا، این ای سی نے فیڈرل فلڈ پروٹیکشن پروگرام شروع کرنے کی منظوری بھی دے دی۔ وفاقی حکومت نے توانائی کی بچت کیلئے دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل کو 2035 آئوٹ لک پر بریفنگ دی گئی۔ اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ 2035 تک 570 ارب ڈالر کی معیشت بن سکیں، ان مقاصد کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب ترین 20 اضلاع کو ترقی دیں گے۔ ای۔ پاکستان کے ذریعے ڈیجیٹل انقلاب لائیں گے، انٹرنیٹ فار آل کو فروغ دیں گے، نیشنل فلڈ پروٹیکشن اور فوڈ سکیورٹی گرین انقلاب کے منصوبے بھی شروع ہوں گے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے، معیشت کی بہتری کیلئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر سکیورٹی اور مصنوعی ذہانت کو فروغ دینا ہے، ای۔ پاکستان بہت وسیع منصوبہ ہے، نیشنل سینٹر فار مینوفیکچرنگ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات ہیں، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سبز انقلاب لایا جائے گا۔ ورکنگ خواتین میں 22 ہزار سکوٹیز بھی تقسیم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلئے 2 ہزار 700 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کی منظوری دی گئی ہے، جن میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 950 ارب روپے جبکہ 55 ارب روپے ایکسٹرنل فنانسنگ کے شامل ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے مزید کہا کہ ترقی کیلئے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے، ہمیں معاشی بحران ورثے میں ملا، مسلم لیگ کی گزشتہ حکومت میں انرجی بحران کو حل کیا گیا۔ گزشتہ حکومت کے پاس ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں تھا، ہمارے دور میں سی پیک منصوبہ شروع کیا گیا، معیشت کی بہتری کیلئے برآمدات بڑھانی ہوں گی، انٹرنیٹ فار آل منصوبے کو فروغ دیں گے۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل پاکستان کی طرف تیزی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، مستقبل میں مضبوط ڈیجیٹل نظام سے تیزی سے ترقی ممکن ہوگی، حالیہ سیلاب سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے گا، پاکستان کو اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات درپیش ہیں، گزشتہ حکومت نے ملکی ترقی کیلئے کچھ کام نہ کیا۔ مزید برآں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئی ٹی کے شعبہ میں فکسڈ ٹیکس رجیم لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کے لئے بڑے پیکیج کی تیاری کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور آئی ٹی و ٹیلی کام کے حوالہ سے بجٹ تجاویز پر اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں ملکی آئی ٹی برآمدات بڑھانے اور آئی ٹی کے شعبہ میں فکسڈ ٹیکس رجیم لانے کا بڑا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے فکس ٹیکس رجیم کے لئے کمیٹی تشکیل دی اور ہدایت کی کہ کمیٹی فوری طور پر اپنی سفارشات پیش کرے۔ اجلاس میں آئی ٹی کے شعبہ میں نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو خصوصی مراعات دینے کی اصولی منظوری بھی دی گئی۔ آئی ٹی کے شعبہ کیلئے بجٹ سفارشات کی منظوری سے لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیراعظم نے نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبہ میں نئی کمپنیوں کی تشکیل کے لئے خصوصی رہنمائی اور سرکاری مدد فراہم کرنے کے اقدامات کی بھی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے بیرون ملک آئی ٹی سیکٹرز کے روڈ شوز منعقد کرنے اور اس شعبے میں سہولیات سے آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں نوجوانوں کو آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہنرمند بنانے کے پروگرام میں بڑی توسیع کے خصوصی پروگرام کی بھی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت بجٹ میں نوجوانوں کی آئی شعبے کی پیشہ ورانہ تربیت پر خطیر رقم خرچ کرے گی، اس وقت ملک میں 45 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی ہنر کی تربیت فراہم کی جارہی ہے، حکومت آئندہ بجٹ میں ایک لاکھ نوجوانوں کو میرٹ پر لیپ ٹاپس فراہم کرے گی۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو بجٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کر کے مرحلہ وار متبادل ذرائع سے بجلی کے نئے منصوبے شروع کئے جائیں، بجلی کے لائف لائن اور کم کھپت والے صارفین پر بِلوں کا کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ انہوں نے یہ ہدایت توانائی شعبے کے حوالے سے بجٹ تجاویز پر اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کی۔ اجلاس میں وفاقی وزراء اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، انجینئر خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، مشیر وزیرِ اعظم احد خان چیمہ، وزراء مملکت ڈاکٹر مصدق ملک، عائشہ غوث پاشا، معاونین خصوصی طارق باجوہ، جہانزیب خان، چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین واپڈا اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اعلامیہ کے مطابق مالی سال 2022-23ء کے نظرثانی شدہ ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی گئی۔ رواں سال وفاقی پی ایس ڈی پی 714 ارب‘ صوبائی ترقیاتی بجٹ 1598 ارب روپے رہا۔ اجلاس نے مالی سال 2023-24 ء کیلئے قومی ترقیاتی بجٹ کی بھی منظوری دے دی۔ آئندہ مالی سال قومی ترقیاتی بجٹ کا حجم 2709 ارب روپے ہو گا۔ مجموعی ترقیاتی پروگرام میں وفاق پی ایس ڈی پی 1150 ارب روپے خرچ کرے گا۔ دو سو ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ‘ 950 ارب روپے‘ وفاق کا پی ایس ڈی پی ہو گا۔ صوبوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے ہو گا۔ پنجاب کا آئندہ چار ماہ کیلئے ترقیاتی بجٹ 426 ارب روپے ہو گا۔ خیبر پی کے کا بجٹ 268 ارب روپے ہو گا جو آئندہ چار ماہ کیلئے ہے۔ سندھ کیلئے 617 ارب روپے سالانہ ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی گئی۔ بلوچستان کیلئے سالانہ ترقیاتی بجٹ کیلئے 248 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ سال 2023-24ء کے ترقیاتی فنڈ میں رواں برس کی نسبت 17 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں مجموعی طور پر 1182 سکیمیں شامل کی گئی ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں 311 نئی‘ 871 جاری ترقیاتی سکیمیں ہیں۔ اجلاس کو وفاقی وزرات منصوبہ بندی کی جانب سے فلڈ بحالی منصوبے پر بریفنگ دی گئی۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو کے منصوبوں پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ فنڈنگ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک کر رہے ہیں۔ قومی اقتصادی کونسل نے ملکی مجموعی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں۔ پاکستان کی خوشحالی تب تک ممکن نہیں جب تک صوبے خوشحال نہ ہوں۔ محدود معاشی وسائل کے باوجود حکومت صوبوں کے ترقیاتی مطالبے پورے کرے گی۔ وفاقی حکومت وسائل کی منصفانہ و شفاف تقسیم یقینی بنائے گی۔ وزیر منصوبہ بندی کی سربراہی میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر کمیٹی بنا دی ہے۔ قومی اقتصادی کونسل نے اس سال حاصل ہونے والی 0.3 فیصد شرح نمو کی منظوری دی۔ اجلاس نے 80 ارب روپے کی لاگت سے وزیراعظم کے خصوصی اقدامات کی بھی منظوری دی۔ ان اقدامات میں ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر مرحلہ وار منتقلی شامل ہے۔ ان اقدامات میں نوجوانوں کو کاروبار کے لئے آسان قرضوں کی فراہمی شامل ہے۔ ان اقدامات میں ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کا قیام‘ آئی ٹی سٹارٹ اپس‘ لیپ ٹاپ سکیم‘ نوجوانوں کیلئے تربیتی پروگرام اور وینچر کیپٹل کا فروغ شامل ہیں۔ اجلاس میں قومی توانائی بچت پلان پر بھی بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم شہبا زشریف نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ قومی اقتصادی کونسل نے معاشی ترقی و خوشحالی کے حصول کیلئے اہم فیصلے کئے ہیں۔ اہداف پورے کرنے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن اور مستقبل کی ٹیکنالوجی پر محنت کی جائے گی۔ تمام توانائیاں سرمایہ کاری میں سہولت، برآمدات میں اضافے پر صرف کریں گے۔
دکانیں 8 بجے
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معاشی ترقی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت ملکی معاشی ترقی کیلئے تعلیم، صحت، جدید انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کررہی ہے، پاکستان میں گرین ریولوشن 2.0 کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس سے ملک زراعت میں خود کفیل ہوگا۔ حکومت زراعت کے شعبے کی جدت، پیداوار میں اضافے اور فی ایکڑ لاگت میں کمی کیلئے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ منگل کو وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء سید نوید قمر، اسحاق ڈار، احسن اقبال، مولانا اسعد محمود، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا اعظم خان، سینیٹر نثار احمد کھوڑو، مشیر خزانہ و توانائی خیبر پختونخوا حمایت اللہ، بلوچستان کے سینئیر وزیرِ اور وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے شرکت کی۔ نگران وزیرِ اعلی پنجاب سید محسن نقوی نے اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ قومی اقتصادی کونسل نے ملکی مجموعی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور تفصیلی مشاورت کی۔ وزیرِ اعظم نے اجلاس کے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں اور پاکستان کی خوشحالی تب تک ممکن نہیں جب تک صوبے خوشحال نہ ہوں۔ وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ محدود معاشی وسائل کے باوجود حکومت صوبوں کے ترقیاتی مطالبے پورے کرے گی اور وسائل کی منصفانہ و شفاف تقسیم یقینی بنائے گی۔ اس حوالے سے وزیرِ منصوبہ بندی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ اس امر کو یقینی بنائے گی کہ صوبوں کو ملنے والے فنڈز میں کسی قسم کی تخصیص نہیں برتی جائے گی بلکہ تمام صوبوں کو انکی ضروریات کے مطابق موجودہ وسائل منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر تقسیم کئے جائیں۔ وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ 2018 میں جب مسلم لیگ ن نے حکومت چھوڑی تب وفاقی ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے تھا جوکہ 2021-22 میں کم کرکے صرف 550 ارب روپے کر دیا گیا۔ اس مجرمانہ فعل سے ملکی ترقی کو دانستہ طور پر روکا گیا۔ مگر موجودہ حکومت نے معاشی چیلنجز کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کرکے اسے آئندہ سال کیلئے 1150 ارب روپے کیا ہے تاکہ نہ صرف پاکستان ترقی کرے بلکہ اس ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ قومی اقتصادی کونسل کو بتایا گیا کہ گزشتہ حکومت کی چھوڑی ہوئی معاشی مشکلات و پاکستان میں تاریخی سیلاب سے معیشت کو 30 ارب ڈالر کے نقصان کے باوجود رواں سال حاصل ہونے والی شرح نمو 0.3 فیصد رہی۔ گزشتہ حکومت نے مالی سال 2021-22 میں 84 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جس کی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ملکی معاشی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا۔ آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد پر رکھنے کی بھی منظوری دی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں سال ملک میں مجوعی طور پر سرمایہ کاری کی شرح 13.61 فیصد رہی جبکہ آئندہ مالی سال میں اس کا ہدف بھی بڑھا کر 15 فیصد رکھا گیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے اجلاس میں 5- ایز( Es) فریم ورک پر شرکاء کو بریفنگ دی جس کے تحت برآمدات کے فروغ، ای (ڈیجیٹل) پاکستان کی ترقی، ماحولیات، توانائی اور مساویانہ پاکستان پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے لہذا اس فریم ورک کے تحت ایسا ایجنڈا مرتب کیا گیا ہے جو پاکستان کے لئے ناگزیر ہے۔ 5ایز میں سب سے پہلے برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، حکومت کی ترجیح ہے کہ ان پانچ شعبوں کے ذریعے برآمدات کو بڑھایا جائے، عالمی مارکیٹ میں پانچ شعبوں کے ذریعے اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔
وزیراعظم
لاہور (کامرس رپورٹر ) تاجروں کی نمائندہ تنظیموں نے حکومت کی جانب سے کاروبار رات آٹھ بجے بند کرنے کے حکومتی فیصلے پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ماضی کی طرح ایک بار پھر اتنا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے سٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کرنا گوارا نہیں، جب تک سٹیک ہولڈرز کو مطمئن نہیں کیا جائے گا فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے، حکومت فی الفور تاجر تنظیموں سے رابطے کیلئے با اختیار فوکل پرسن کا تقرر کرے۔ آل پاکستان انجمن تاجران (اشرف بھٹی) گروپ کے مرکزی صدر اشرف بھٹی اور آل پاکستان انجمن تاجران (نعیم میر گروپ) کے سیکرٹری جنرل نعیم میر نے اپنے بیانات میں کہا فیصلے پر صوبائی حکومتوں نے عملدرآمد کرانا ہے اس لئے وزرائے اعلیٰ کو ہدایات جاری کی جائیں کہ تاجر وں کی نمائندہ تنظیموں کو بلائیں اور ان سے مذاکرات کریں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے مہنگی کمرشل بجلی کے خریدار تاجر ہیں اور حکومت انہیں ہی کہہ رہی ہے کہ کاروبار بند کر دو، ہم نے آپ کو بجلی نہیں دینی اور سبسڈائز بجلی فروخت کرنی ہے، توانائی کے شعبے کا سرکلر ڈیٹ پہلے ہی قابو میں نہیں۔ کیا ہمیں یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کے نتیجے میں توانائی کی جو بچت ہو گی وہ ہمیں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کی صورت میں ملے گی۔ کیا پولیس اور انتظامیہ اس فیصلے کی آڑ میں بھتہ خوری نہیں کرے گی اور غیر قانونی طریقے سے کچھ دکانوں اور مارکیٹوں کو تو نہیں کھلوائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی حکومتیں اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہو چکی ہیں جس کا تاجروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آغاز میں فیصلے کے نتیجے میں جب خریدار اپنا معمول تبدیل کرنا شروع کرتے ہیں تو تھوڑے عرصے کے بعد فیصلے کو واپس لے لیا جاتا ہے۔ تاجر تنظیموں کے عہدیداروں نے کہا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ اس فیصلے کے نفاذ سے قبل فی الفور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا آغاز کریں تاکہ تاجروں میں پائی جانے والی تشویش کا خاتمہ ہو سکے۔
تاجر تشویش