حقیقت دین اور اصلاح معاشرہ (1)
قرآن کریم ایسے تمام معاملات کو جو معاشرتی اصلاح کا سبب بنتے ہیں ، انہیں دین سے جدا قرار نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالی کی محبت کا مظہر اور حقیقت دین کا عکس تمام قرار دیتا ہے۔ اس حقیت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ان امور کا تارک دراصل روح ایمان سے بہرہ ہے۔ نیکی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : ’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی ، یوم آخرت ، فرشتوں ، کتابوں اور تمام انبیا ء پر ایمان لائے اور اللہ تعالی کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ،مانگنے والوں اور غلامی سے آزاد ہونے والوں کو دے ، نماز قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے اور یہی لوگ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ سختی اور تکلیف میں اور حالت جنگ میں ڈٹ جانیوالے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہے ‘‘۔ اس آیت کریمہ میں دو چیزوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک ایمان کی پختگی کی ہدایت اور دوسرا حقوق العباد کی ادائیگی اور مخلوق خدا سے احسان کا معاملہ کرنا۔ دراصل یہ دونوں چیزیں ہی معاشرے سے بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ایمان میں پختگی انسان کو صابر ، شاکر اور مثبت سوچ کا حامل بناتی ہے اور اللہ تعالی کے بندوں سے بھلائی معاشرے میں محبت و الفت کو فروغ دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کا معاملہ کر رہا ہو گا تو وہ اس کی جان ، مال اور عزت کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھے گا اور اسی چیز کا عملی مظاہرہ اصلاح معاشرہ کی صورت میں ہو گا۔
قرآن مجید تو ایسے امور کو اصل دین اور مغز ایمان قرار دیتا ہے جس کا نتیجہ معاشرتی بگاڑ کا خاتمہ ہے۔ اگرا مراء ، غربا کا حق نکالتے رہیں تو معاشرے میں کوئی انسان بھوکا نہ سوئے اور کسی غریب کا بچہ صرف اس لیے زندگی کی بازی نہ ہارے کہ اس کے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں۔ اس لیے قرآن مجید ایمان بااللہ کے ساتھ ہی ساتھ غربا پروری کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے ایک مکالمے کا ذکر ہے۔ ترجمہ :’’جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے آئی۔ وہ کہیں گے ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ اور ہم فضول بحثیں کرنے والوں کے ساتھ فضول بحثیں کیا کرتے تھے‘‘۔یہاں نماز کے ترک کرنے کے گناہ کے بعد جن گناہوں کا ذکر کیا گیا وہ غرباکے حقوق کی عدم ادائیگی اور بیہودہ گوئی کے گناہ ہیں۔ ان جرائم کا خاتمہ ہی معاشرے سے فساد کو ختم کرتا ہے۔