بدھ‘ 17 ذیقعد‘ 1444ھ‘ 7 جون 2023ء
پاکستان پر سفری پابندیوں کی جھوٹی خبریں پھیلانے کی کوشش ناکام
آخر یہ پی ٹی آئی والوں کو کیا ہو گیاجو ایسا مکروہ دھندا چلا رہے ہیں۔ کیا ان کے دل میں اپنے وطن کی محبت سے زیادہ اپنے سیاسی مداریوں کی اہمیت گھر کر چکی ہے جو لوگ بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ہی وطن کو بدنام کرتے ہیں وہاں کے سیاسی حالات معاشی حالات کو تباہ کن بتا کر دیار غیر میں جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے غیر ذمہ دار عناصر نے یہ افواہ اڑائی کہ امریکہ نے پاکستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے وہاں جانے کے حوالے سے ٹریول ایڈوائزی جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو پاکستان میں سفر کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ بڑی خطرناک سازش تھی۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب تبا ہ ہو سکتا تھا۔ خدا خدا کر کے ہم دہشت گردی کے حصار سے باہر نکلے ہیں مگر ہمارے دشمن اور ان کے آلہ کار ہمیں پھر بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس خبر کے پھیلتے ہی امریکی حکام نے اس کی تردید کر دی ۔
امریکہ نے کھل کر کہا ہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے اعلان کرے ایسا صرف سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہی کرتی ہے۔ جس نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یہ جھوٹی خبر ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم سیاسی دشمنی میں کتنا گر چکے ہیں کہ اچھے برے کی تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں۔ ایسی غلط ملط باتیں پھیلانا بری حرکت ہی نہیں بڑی غیر ذمہ دارانہ بات بھی ہے۔ ریاست کو حق ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کرے۔ انہیں ایسی حرکتوں سے روکے ورنہ تادیبی کارروائی کی جائے۔ ملک و قوم کی عزت و حرمت سب سے مقدم ہے۔ سیاست بعد کی بات ہے۔ نفرت میں حد سے گزرنا ملک و قوم کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی حرکت سے پرہیز ضروری ہے ۔ تارکین وطن تو بیرون ملک سفیر ہوتے ہیں ان کو تو اچھے رویوں کو فروغ دینا چاہیے۔
٭٭٭٭
پشاور بی آر ٹی منصوبہ مالی بحران کا شکار، نجی کمپنی کا سروس بند کرنے پر غور
جس منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن ہو‘ اس کی لٹیا کسی بھی وقت ڈوبنے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ یہی کچھ بی آر ٹی میٹروبس سروس پشاور میں بھی ہو رہا ہے جو اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ واجبات ادا نہ ہونے پر سروس چلانے والی نجی کمپنی نے اسے بند کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ کروڑوں روپے کمپنی کو صوبائی حکومت نے واجبات کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس منصوبہ کے ابتدا ہی میں اس میں شدید مالی کرپشن کے معاملات سامنے آئے مگر اس وقت صوبے میں اور مرکز میں اپنی حکومت تھی اس لیے معاملات دبا دئیے گئے۔ اس کے باوجود وقفے وقفے سے اس تعمیر میں تاخیر سے اس کے اخراجات بھی کئی گنا بڑھ گئے پھر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ خدا خدا کر کے یہ منصوبہ فعال ہوا تو پے درپے حادثات نے اسکی کارکردگی کا پول دیا ہے۔ یہ ایک بڑا اہم عوامی مفاد کا مسئلہ ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد اس سروس سے مستفید ہوتے ہیں۔ غریبوں کے لیے ایسے منصوبہ باعث رحمت ہوتے ہیں۔ ان کو جاری رکھنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ آخر غریبوں کا بھی حق ہے کہ انہیں کوئی سہولت ملے۔ پنجاب میں میٹروبس سروس فعال ہے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سندھ میں حال ہی میں یہ سروس شروع ہوئی ہے۔ خدا کرے بلوچستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ عوام کو کھٹارہ بسوں ، ویگنوں اور چنگ چی کے اذیت ناک سفر سے نجات ملے۔
٭٭٭٭٭
بھارت پارلیمنٹ کی دیوار پر اکھنڈ بھارت کے نقشے پر نیپال کے تحفظات
آرٹ ورک کے نام پر بھارت کے حکمرانوں نے جس طرح اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ نئی دہلی میں بھارت کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح گزشتہ دنوں نریندر مودی نے کیا۔ اب اس عمارت میں آرٹ ورک کے نام پر ایک ایسامکروہ نقشہ لگایا گیا ہے جس سے ہندو انتہا پسند چڑھا رہے ہیں۔ پاکستان تو خدا کے فصل سے بھارت کے سینے پر مونگ دھلنے کے لیے تاقیامت موجود رہے گا۔ بھارت کا یہ مکروہ نقشہ کبھی پورا نہیں ہو گا۔ مگر نیپال والے پریشان ہیں وہ سادہ لوح امن پسند لوگ ہیں۔ اس نقشے میں جسے اشوک سلطنت کے مطابق بنایا گیا ہے۔ برصغیر کے علاوہ نیپال کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے جس پر وہ اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیونکہ سکم کے جبری طور پر بھارت میں ضم کرنے سے بھوٹال اور نیپال والے بہت پریشان ہیں۔ نیپال اور بھوٹان کو تو بھارت ترنوالہ سمجھتا ہے۔ یہ تو چین کی وجہ سے خاموش ہے جس کی سرحدیں ان ممالک سے ملتی ہیں ۔ اب معلوم نہیں افغانستان والے کیا ردعمل دیتے ہیںکیونکہ اشوک کے دورمیں افغانیہ کا کافی حصہ بھی اشوک کے زیر نگیں تھا۔ افغان حکومت شایدبھارت سے محبت اور دوستی کے جذبے کے تحت اس پر خاص ردعمل نہ دے۔ مگر پاکستانی میڈیا اور حکومت کو چاہیے کہ وہ کھل کر بھارت کوایسے دیوانوں کے خواب دیکھنے سے بیدار کرے اور یاد دلائے کہ 1000 ہزار سال بھارت پر مسلمانوں کی حکومت رہی اسے بھارتی ہندو انتہا پسند یاد رکھیں پھر 1947ء میں پاکستان کا قیام اس بات کا گواہ ہے کہ یہ کوئی ترنوالہ ریاست نہیں ایک ایٹمی طاقت ہے جس سے چھیڑ خانی کے نتیجے میں اشوک والا ہی نہیں مودی والا بھارت بھی نیست و نابود ہو جائے گا ۔
٭٭٭٭
امریکہ میں معذور طالبہ کے ساتھ آنے جانے والے کتے کو بھی اعزازی ڈگری دی گئی
ترقی یافتہ تعلیم دوست قوموں کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ تعلیم کے میدان میں حصہ لینے والے ہر باصلاحیت طالب علم کو دل کھول کر سراہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس کام میں ان کے معاونت کرنیوالوں کو بھی اعزاز سے نوازتے ہیں۔ اب امریکہ میں جس معذور طالبہ کو کالج کی طرف سے ڈگری ملی وہ وہیل چیئر پر آتی جاتی تھی۔ اس کام میں ان کا پالتو کتا اس کی معاونت کرتا ہے۔ وہ طالبہ کے ساتھ تعلیمی ادارے میں آتا جاتا تھا۔ اس کتے کی اس وفاداری اور کارکردگی نے تعلیمی ادارے کی عملے کو بھی متاثر کیا۔ جس کا جواب انہوں نے بھی اس اعلیٰ روایت کے مطابق ہی دیا۔ جب یہ معذور طالبہ وہیل چیئر پر ڈگری لے رہی تھی تو اسکا یہ وفادارکتا بھی اس کے ساتھ تھا۔ تقریب کے منتظمین نے تالیوں کی گونج میں اس طالبہ کے ساتھ اس تعلیمی سفر میں اس کے ہم قدم رہنے والے اس کتے کو بھی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تو سب کے آنکھوں میں تشکر کے آنسو بہہ نکلے۔ یوں اس کی طالبہ کے ساتھ اس سگ وفادار نے بھی ڈگری لی اور باوقار طریقے سے اپنی مالکہ کی وہیل چیئر کے ساتھ چلتا ہوا سٹیج سے نیچے اترا۔ اس کے برعکس ذرا ہمارے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہم معذوروں کو کسی قالب نہیں سمجھتے انہیں بوجھ قرار دیتے ہیں۔ یوں وہ معذور جن میں قابل بھی ہوتے ہیں‘ معاشرے میں عضو معطل بن کررہ جاتے ہیں ۔ جسمانی معذوری کے باوجود دنیا بھر میں لاکھوں افراد بڑے بڑے کام کر رہے ہیں نام کما رہے ہیں اور ہم ایسے خصوصی بچوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ ان کے جذبات ، احساس اور خواہشوں کا قدم قدم پر گلا گھونٹتے ہیں۔
٭٭٭٭