میں اپنے گورے دوستوں کو کیسے سمجھاﺅں!
اسے وطن عزیز کی بدقسمتی کہہ لیں‘ قومی زوال یا پھر سیاست دانوں کی غیرسنجیدہ فکرونظر کہ آزادی کے 76 برس گزرنے کے باوجود اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا پاکستان تاہنوز سیاسی و معاشی بحرانوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پارہا۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے وطن‘ اپنی مجبور قوم اور ملکی حالات کو اس نہج پر پہنچانے والوں کو آئینہ دکھاﺅں‘ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور بے بسی کی زندگی گزارنے والے عوام کو انکے جائز اور بنیادی حقوق میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی نشاندہی کروں۔ عام آدمی کی متاثرہ عزت نفس کا مداوا کرنے کی کوشش کروں‘ مگر! افسوس ’قلم‘ ایسا کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ گزشتہ دنوں وطن عزیز میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ آئندہ چند ہفتوں میں ہونے جا رہا ہے‘ اس بارے میں ان سطور میں میں باربار ذکر کررہا ہوں۔ کورکمانڈر ہاﺅس کو نذر آتش کرنا یا کسی بھی عسکری تنصیبات کی توڑ پھوڑ‘ کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں‘ بلکہ دنیا بھر میں ایسے تخریبی واقعات قومی سلامتی پر حملہ تصور کئے جاتے ہیں۔ دکھ صرف اس بات پر ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور کولیشن حکومت کے بیشتر وزراءابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ مذکورہ حملے تخریب کاری تھی‘ شرپسند عناصر کی حرکت تھی یا پھر دہشت گردوں کا کوئی طے شدہ منصوبہ تھا۔ یہاں لندن میں پاکستان میں ہونیوالے ان تخریبی واقعات پر بھی چونکہ گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اس لئے پڑھے لکھے گوروں کا اس بارے میں سوال پوچھنے کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہے۔ میرے عسکری تجزیہ نگار ایک گورے دوست کا جس کا ان سطور میں اکثر وبیشتر ذکر کرتا رہتا ہوں‘ کیپٹن (ر) فریڈ اس بات پر حیران ہے کہ بھرپور آرمی گارڈ‘ ایم پی اور ایف آئی یو کی موجودگی کے باوجود شرپسند کورکمانڈر ہاﺅس کے اندر کیسے پہنچ گئے؟ جبکہ کسی کورکمانڈر کی سرکاری رہائش تک کسی سویلین کی آزادانہ رسائی کے بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا۔ گورا دوست یہ بھی سمجھ نہیں پا رہا کہ پولیس اور متعلقہ سکیورٹی ادارے بروقت کیوں اقدام نہ کر سکے؟ سی سی ٹی وی کیمرے اگر آن تھے تو وہ ناکارہ کیسے ہو گئے؟ دوست کا کہنا ہے کہ دنیا کی 10 بہترین مسلح افواج میں شمار ہونیوالی پاک آرمی جس کے کمانڈرز کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے‘ اپنے کورکمانڈر کی رہائش گاہ کو محفوظ نہ بنا سکے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ذاتی طور پر فریڈ کی سوچ سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں مگر اب سوچنے کا فائدہ کیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات میں ملوث شرپسند عناصر کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ مزید مسائل سے دوچار اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مزید عالمی شرمندگی سے بچایا جاسکے۔
تحریک انصاف کو مائنس کرنے کا فارمولا اور ایک اور نئی سیاسی جماعت کے قیام کے ساتھ عدلیہ اور حکومت کے مابین محاذآرائی کا سلسلہ بھی چونکہ کئی ماہ سے چل رہا ہے اس لئے بیرونی دنیا اور بالخصوص برطانیہ میں پایا جانیوالا یہ تاثر کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے معاملات شاید اب سنبھل نہ پائیں‘ حقیقت کے قریب ہوتا نظر آرہا ہے۔ میں گو ماہر معاشیات نہیں‘ تاہم ڈالر کی اونچی اڑان‘ مہنگائی کی روزافزوں بڑھتی شرح اور کولیشن حکومت کی تحریک انصاف کے ساتھ بڑھتی مبینہ محاذآرائی سے یہ اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ ایسے معاشی حالات میں 25 کروڑ آبادی والا جوہری قوت کا حامل پاکستان چھ ماہ کے اندر ڈیفالٹ ہو سکتا ہے۔ ”لفظ ہوسکتا“ اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ملک و قوم کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی حالات اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں آئی ایم ایف قرضوں کے حوالے سے مزید شرائط لگا سکتا ہے کہ ہمارا چار سالہ معاہدہ اسی ماہ اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ قوم کو آج تک یہ بھی آگاہ نہیں کیا گیا کہ سٹاف لیول پر کئے معاہدوں کی بنیادی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ اب یہ کہنا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے فیصلے کی اس لئے بھی پرواہ نہیں کہ حکومت تمام تر شرائط پوری کر چکی ہے۔ محض قوم کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے۔ ورنہ قرضوں کی واپسی اور نئے قرضوں کی شرائط کی منظوری کے بغیر پاکستان کا اس مالی بحران سے نکلنا ہرگز ممکن نہیں۔ اس سے بڑی افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ گزشتہ پچاس برس سے آئی ایم ایف ہماری ضرورت بن چکا ہے۔ سود پر حاصل کئے تمام قرضے ملک و قوم کیلئے وبال جان بن چکے ہیں جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف نے بغیر لگی لپٹی موجودہ حکومت پر یہ بھی واضح کر دیا کہ سیاسی استحکام سے قبل یہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی favour نہیں دے پائے گا مگر ہماری وزیر مملکت برائے خزانہ محترمہ عائشہ غوث پاشا نے آئی ایم ایف مشن چیف کے دیئے حالیہ بیان کو پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف بھی کر ڈالا ہے کہ آئی ایم ایف سے کی جانیوالی ڈیل کی کوششیں اگر کامیاب نہ ہوئیں تو وزارت خزانہ کے پاس بی پلان موجود ہے جو وہ استعمال کرے گی۔ میں اوپر یہ عرض کر چکا ہوں کہ میں ماہر معاشیات نہیں‘ مگر وزیر مملکت عائشہ صاحبہ کے اس انکشاف پر مجھے حیرت اس لئے بھی ہے کہ وزارت خزانہ کے پاس اگر پلان بی موجود ہے تو پھر اس منصوبے کو فوری استعمال میں رکاوٹ کیسی؟ مجھے تو میرے ایک گورے ماہر معاشیات دوست نے یہ بتایا ہے کہ مالی طور پر متاثرہ ممالک کے مذاکرات جب آئی ایم ایف سے ناکام ہوتے ہیں تو پھر وزارت خزانہ سے نہیں براہ راست اس ملک کے وزیراعظم سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے اور یہ وہ سٹیج ہوتی ہے جہاں آئی ایم ایف آئندہ کسی بھی معاہدے سے معذرت کر لیتا ہے۔ امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت والا ملک تصورکیا جاتا ہے‘ آج 31 عشاریہ 4 کھرب ڈالرز کا مقروض ہے مگر اگلے روز ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے محفوظ ہو گیا۔ وجہ؟ یہ تو جناب اسحاق ڈار ہی بتا سکتے ہیں کہ میں ماہر معاشیات نہیں۔