جمعرات ، 18 ذیقعد، 1444ھ، 8جون 2023ئ
پی ڈی ایم کے چراغوں میں تیل نہیں‘ ملک
کو اندھیرے میں دھکیل دیا: سراج الحق
اگر اس فکرمند ی کے ساتھ ہی سراج الحق صاحب عوام کو حوصلہ بھی دلاتے کہ
کرو نہ غم جو ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
لہو کا تیل چراغوں میں ڈالنے کیلئے
تو عوام کو حوصلہ ہوتا کہ کوئی بات نہیں‘ اگر پی ڈی ایم کا چراغ تیل سے خالی ہے اور جلنے سے قاصر ہے تو کیا ہوا‘ جماعت اسلامی کا چراغ تو جل رہا ہے۔ اس میں ابھی تک تیل باقی ہے۔ فی الحال اسے بجھا ہوا چراغ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم والے سراج الحق کے جواب میں جوابی طورپر جماعت کو بھی بجھا ہوا چراغ کہہ دیں۔ یا ہو سکتا ہے دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلائے جا بجھائے جا کے مصداق جلتے بجھتے دیپ کے عنوان سے سیاسی میدان میں ایک نئے غیر طرحی مشاعرے کی بنیاد پڑ جائے اور باقی جماعتیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے میدان میں کود پڑیں۔ اسی طرح کم از کم لو کے موسم میں سیاسی بادصبا چلنے کا احساس سیاست میں گرمی کی شدت میں کمی لانے کا موجب بنے۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ماہ جون میں بھی موسم نارمل ہے۔ گرمی نے وہ قیامت نہیں ڈھائی جو اس ماہ ہر سال کروڑوں پاکستانی سہتے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی جو گرمی کی لہر آئی تھی‘ اس کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ اب سراج الحق صاحب ملک کو اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے مقابلہ میں اپنا چراغ لیکر عوام سے پرانے چراغ گل کر دو کی جو بات کر رہے ہیں‘ دیکھنا ہے کتنے لوگ اس پر کان دھرتے ہیں۔ اب لوگ باشعور ہو رہے ہیں‘وہ الہ دین کے جادوئی چراغ والی کہانی سے بھی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسا کوئی چراغ نہیں بنا اور نہ کسی کے پاس ہے جو چشم زدن میں عوام کے مسائل حل کر دے۔
٭٭........٭٭........٭٭
اسرائیل سعودی سفارتی تعلقات کیلئے پرعزم‘ امریکی وزیرخارجہ ریاض پہنچ گئے
امریکہ کو مسلم ممالک میں امن ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جہاں کہیں متحارب مسلم ممالک میں امن قائم ہوتا ہے صلح کی راہ نکلتی ہے‘ وہ اپنا لچ تلنے پہنچ جاتا ہے۔ خدا خدا کرکے سعودی عرب اور ایران میں دوستی بحال ہوئی۔ اس سے خلیج میں حالات بہتر ہونگے مگر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو خطرہ ہے کہ کہیں ایران اور سعودی عرب دوستی اس کے لے پالک اسرائیل کیلئے کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی کر دے۔ اس لئے وہ اس کے تحفظ کیلئے فکرمند ہو گیا ہے۔ سعودی عرب اور ایک آدھ خلیجی ملک کے اسرائیل سے فی الحال سفارتی تجارتی و سیاسی تعلقات قائم نہیں ہیں۔ اب امریکہ بہادر چاہتا ہے سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ امریکہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے جو مسلم ممالک ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے ہچکچا رہے ہیں‘ وہ بھی اس دوستی کے بعد اطمینان سے اسی راہ پر چلیں گے مگر یاد رہے حکمران جو بھی فیصلہ کر لیں‘ مسلم امہ کبھی فلسطین اور بیت القدس کی کامل آزادی یا بازیابی کے بغیر اسرائیل سے دوستی توکیا‘ صلح کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اب امریکہ ایسے حالات میں جب سعودی عرب کی ایران اور شام سے صلح ہو گئی ہے‘ بہت پریشان ہے۔ اس حالت میں امریکی وزیرخارجہ ریاض پہنچ گئے ہیں جہاں وہ سعودی حکومت کو اسرائیل سے تعلقات کیلئے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اتنی بھاگ دوڑ کی بجائے اگر امریکہ صرف فلسطین کا فیصلہ اچھے انداز میں حل کرا دے تو شاید اس بھاگ دوڑ کی نوبت ہی نہ آئے مگر امریکہ اپنے لے پالک اسرائیل کو جائز ناجائز طریقے سے خوش رکھنا چاہتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک مسلسل زیادتی اور خسارے کا کھیل ہے۔
٭٭........٭٭........٭٭
بھارتی فوج ہمارے ہم پلہ ہے نہ ہمیں اس سے کوئی خطرہ ہے: چین
چین کے اس بیان پر اب بھارت والوں کو مرچیں لگ رہی ہونگی۔ اس کا اندازہ بہت جلد بھارت کی طرف سے جاری ہونے والے اس کے سرکاری و غیر سرکاری بیانات سے لگایا جاسکے گا۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک حقیقت ہے مگر بھارت حقیقت سے آنکھیں چرانے اور اسے تسلیم نہ کرنے کے مرض میں مبتلا ہے۔ وہ بھلا کہاں کسی کی سنتا ہے۔ حقیقت سے آنکھیں چرانا اس کی پرانی عادت ہے۔ 1962ءمیں بھی بھارتی فوج کو اسی مرض کی وجہ سے چین کے ہاتھوں پٹنا پڑا مگر وہی چچا غالب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے ”جوتیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا“ والی بات ابھی تک موجود ہے۔ دراصل بھارت فوجی طاقت کے زعم اور عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کی ناجائز شہہ پر نمرود بن چکا ہے۔ اس کا علاج صرف اور صرف اس کے خناس بھرے سر پر جوتے مارنے میں ہی ہے۔ چین یہ بات بخوبی سمجھ چکا ہے۔ ہمیں بھی جلد یا بدیر یہ حقیقت ماننا ہوگی کہ بھارت کا یہی سب سے موثر اور بہتر علاج ہے۔ اس کے باوجود اس نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ وہ علاقائی تنازعات مذاکرات سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ کاش بھارت بھی چین کی طرح بڑا ملک ہونے کے ناطے ایسی ہی خواہش کا اظہار کرے تو اس کے اپنے کسی پڑوسی سے تعلقات خراب نہ ہوں اور یہ خطہ پرامن بقائے باہمی کی مثال بن جائے مگر بھارت کو عادت ہے دوسرے ممالک کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی۔ جواب میں کئی بار اسے منہ کی کھانا پڑی مگر وہی بات بھارت پر کوئی اثر نہیں ہوتا وہ اپنی مکروہ حرکات سے باز نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے بھارت کو ایک بار پھر اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو چین کو بھارتی فوجی طاقت سے خطرہ ہے نہ چین اسے اپنے ہم پلہ سمجھتا ہے۔ نہ بھارت اس ”جوگا“ ہے۔ امید ہے اب بھارت کو اس بیان کے بعد ”ٹھنڈ“ پڑ گئی ہوگی اور وہ چین کو آنکھیں دکھانے بعد میں کمر پر ٹکور کرنے سے باز رہے گا۔
٭٭........٭٭........٭٭
نوازشریف سب سے پاور فل اور زرداری کی سیاست کامیاب ہے: اعتزاز احسن
اعتزاز احسن بڑے نامور وکیل ہیں‘ سیاستدان بھی ہیں مگر آج کل لگتا ہے یا عمر رفتہ کا تقاضا ہے کہ وہ کسی ایک رخ پر زیادہ دیر نہیں چلتے یا سب کے ساتھ تعلقات استوار رکھناچاہتے ہیں۔ چند روز پہلے تک کے ان بیانات دیکھ لیں یوں لگتا ہے گویا وہ عمران خان پر مر مٹے ہیں۔ فنا فی العمران ہو چکے ہیں مگر آج اعتراف کر رہے ہیں کہ میاں نوازشریف سب سے زیادہ پاور فل ہیں اور من مرضی کے فیصلے حکومت سے کروا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اپنے دامن سے اعتزاز احسن کی جانب سے لگایا گیا داغ فوری طورپر دھلوائے اور ثابت کرے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف اعتزازاحسن کا خوف ہے۔ دوسرے سانس میں موصوف فرما رہے ہیں کہ اس وقت سب سے کامیاب سیاست آصف زداری کی ہے۔ اس پر چلیں کہہ سکتے ہیں کہ اعترازاحسن خود بھی پیپلزپارٹی کے قدیم غم خواروں میں سرفہرست رہے ہیں۔ لاکھ وہ اپنا دامن بچا کر چلیں مگر وہی
تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
اب ان کے اس قسم کے بیانات سے ان کے نئے سیاسی ہیرو عمران خان کہیں ناراض نہ ہو جائیں کہ ظالم یہ کیا کر رہے ہو۔ ”کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“ والی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہو۔ بس مجھے چاہو‘ مجھے دیکھو اور مجھے مانو۔ اعتزاز احسن کو شاید یاد نہیں رہا کہ عمران خان اپنے علاوہ کسی دوسرے پر نگاہ ڈالنے کے بھی روادار نہیں۔ وہ ان سب شخصیات کو قاتل گردن زدنی قرا دیتے ہیں جن کو ان کے مقابلے میں لانے کی یا کھڑا کرنے کی ادنیٰ سی کوشش بھی کسی جانب سے ہو مگر یہ کیا اعتزاز جی کی زبان میاں نوازشریف اور آصف زداری کی تعریف میں غوطے کھا رہی ہے۔ اب ایسا کرنے سے زمان پارک میں ان کے پڑوسی عمران خان کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں۔ اب اس عمر میں اعتزاز جی کہاں جائیں گے دل پشوری کرنے۔
٭٭٭٭٭٭