یہ نہیں ہونا چاہیے تھا!!!!!!
توقعات کے عین مطابق ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ عبدالعلیم خان کی رہائش گاہ پر جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں نے نئی جماعت کا فیصلہ کیا۔ لوگ بہت حیران ہو رہے ہونگے کہ کون کون لوگ ایک خان کو چھوڑ کر دوسرے خان کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں ایسے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے اس سے بڑے دھچکے بھی لگ سکتے ہیں۔ بہرحال اس توڑ پھوڑ اور نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے مجھے نہ کوئی حیرت ہے نہ میرے لیے یہ کوئی غیر معمولی چیز ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابھی پاکستان میں حکومت تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ حالات قابو میں تھے پی ٹی آئی والے آسمانوں پر اڑ رہے تھے وہ اس خیال میں تھے کہ دس سال تک تو ہر حال وہ حکومت میں رہیں گے اور اس دوران سیاسی مخالفت ختم ہو جائے گی اور انہیں ایک اور مدت بھی مل سکتی ہیں۔ ان دنوں چوہدری محمد سرور پنجاب کے گورنر تھے ان کے پاس جانا آنا لگا رہتا تھا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گورنر ہاو¿س میں واک کر رہا تھا تو ایک سوال پر بتایا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں گی اور ایک نئی سیاسی جماعت بھی بنے گی۔ میرا یہ خیال بھی تھا کہ نئی سیاسی جماعت گذشتہ برس ستمبر اکتوبر میں بھی سامنے آ سکتی تھی پھر شاید فروری میں بھی اس حوالے سے لکھا اور اب آخر کار وہ تاریخی لمحہ آ ہی گیا ہے جب ایک اور نئی سیاسی جماعت سامنے آئی ہے۔
سیاسی لوگوں کو برداشت، عدم تشدد اور ملکی ترقی کے فلسفے کو آگے بڑھانا چاہیے، زبان کے بجائے دماغ کے استعمال کو اہمیت دینی چاہیے۔ کیونکہ ملک کو استحکام اور تعمیر و ترقی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے متحرک ہیں۔ ان میں سے دو افراد جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان بارے میری رائے ہمیشہ بہت مثبت رہی ہے اور میرے خیال میں ان کی صلاحیتوں سے ہم آج تک حقیقی معنوں میں فائدہ نہیں اٹھا سکے ۔ ہر وہ شخص جو تعمیری، فلاحی اور کاروباری میدان میں ترقی کرتا ہے ریاست کو چاہیے کہ اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔ جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے ۔ بالخصوص زراعت کے شعبے میں جہانگیر ترین انقلابی کام کر سکتے ہیں ملک میں زرعی طاقت کو بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح عبدالعلیم خان بھی فلاحی و تعمیری کاموں میں ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہمیں اس وقت سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں تعمیر و ترقی کے دور کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم معافی مانگنے اور معذرت کرنے کو کمزوری اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طاقتور لوگوں کی نشانی ہے۔ سیاسی لوگوں کو معاف کرنے، صاف گوئی اور سچ بولنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔ ملک کو نمائشی سیاسی کلچر سے زیادہ حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔
جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جو عمران خان نے کیا ہے یا وہ کر رہے ہیں انہیں بھی یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان نے اپنے تشدد پسندانہ رویے کی وجہ سے نہ صرف ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے اس ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بھی نفرت بھری ہے ۔ اس لیے موجودہ سیاسی حالات کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لیے بہت تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو کھیل کے میدان میں پاکستان کا ہیرو بنا، فلاحی کاموں میں ملک کی خدمت کی اور پھر سیاسی میدان میں بھی تبدیلی کی امید بن کر سامنے آیا لیکن جس انداز میں اس کی سیاست اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کچھ زیادہ اچھا نہیں لگتا کیوں کہ جب خواب بکھرتے ہیں، امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں تو حوصلے بھی پست ہوتے ہیں۔
عمران خان ایک امید بنے نوجوان ان کے ساتھ چلے، بزرگوں نے ان کے لیے آواز بلند کی، خواتین نے جدوجہد کی لیکن یہ سب جذبے، ہمتیں اور جوش منفی سیاست اور شدت کی نذر ہو رہا ہے۔
میں نے ان صفحات پر کئی مرتبہ بند گلی، بند گلی، بند گلی کا ذکر کیا ہے اب لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ سیاسی بند گلی کیا ہوتی ہے۔ خود پسندی نے عمران خان کو وہاں پہنچایا کہ دہائیوں تک ساتھ رہنے والے بھی چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ خود عمران خان نے مخلص اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے والوں کو دیوار سے لگانے اور خود کو خوشامدیوں اور سر جھکائے ہر بات پر جی سر جی سر کہنے والوں کو ترجیح دی اور آج اس جگہ پر ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے والے تو پہلے ہی الگ ہو چکے تھے جی سر جی سر کہنے والوں نے بھی اڑان بھر لی ہے۔ اب تو اطلاعات یہ بھی ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے بھی رہائی کے بعد عمران خان کو موقف میں تبدیلی کے ساتھ بیرون ملک روانگی کا مشورہ دیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان نے اس مشورے کو زیادہ پسند نہیں کیا یعنی وہ اب تک حالات سمجھنے اور یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اب وہ پرائم منسٹر نہیں ہیں۔ اب وہ اپوزیشن میں ہیں۔ ان پر مقدمات ہیں اور اگر وہ پاکستان میں رہتے ہوئے مقدمات کا سامنا نہیں کریں گے تو انہیں اس مزاحمت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جب ناموافق حالات میں سیاسی قیادت کو ملک سے باہر وقت گذارنا پڑا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ میاں نواز شریف تو اس وقت بھی لندن میں ہیں۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی باہر گئے واپس آئے ملک کے وزیراعظم بنے پھر جب عمران خان وزیراعظم تھے وہ دوبارہ جیل سے نکل کر انگلینڈ چلے گئے۔ اس وقت ان کے بھائی ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اگر عمران خان ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں آصف علی زرداری کی طرح جیل جانا ہو گا اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح مختلف کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے یا ایسا نہیں کرنا چاہتے تو پھر انہیں شاہ محمود قریشی کے مشورے پر غور کرنا ہو گا۔ سیاست تحمل مزاجی اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کا نام ہے۔ یہاں ہر وقت لعن طعن کر کے کام نہیں چلایا جا سکتا۔ بہرحال ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ خان صاحب کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ کیا ہی اچھا ہو یہ سب مل کر ملک کی خدمت میں لگ جائیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ ختم ہو۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پر مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے