رواں مالی سال کا اقتصادی سروے اور ’میثاقِ معیشت‘ کی ضرورت
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے گزشتہ روز پیش کیا جانے والا مالی سال 2022-23ءکا اقتصادی سروے اس حوالے سے ایک چشم کشا دستاویز ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے اپنے مقرر کردہ معاشی اہداف حاصل نہیں کرسکا۔ سب سے بڑھ کر اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشی شرحِ نمو کا ہدف 0.29 فیصد رہا جبکہ حکومت نے یہ ہدف 5.01 فیصد مقرر کررکھا تھا۔ یہ صورتحال یقینا تشویش ناک ہے۔ اب اسحاق ڈار آج (جمعہ کو) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا وفاقی میزانیہ یا بجٹ پیش کررہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے دعوے تو کیے جارہے ہیں کہ نیا بجٹ عوام دوست ہوگا لیکن ایسے دعوے ہر حکومت کی طرف سے ہی کیے جاتے ہیں اور وہ دعوے عمل کی شکل میں ڈھلتے ہیں یا نہیں، یہ ایک کھلا راز ہے۔ اس کے باوجود عوام مالی سال 2023-24ءکے بجٹ کے انتظار میں ہیں کہ شاید کوئی اچھی خبر آ ہی جائے۔
گزشتہ روز پیش کیے جانے والے اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55فیصد رہی جس کی نمو کاہدف 3.9 فیصد مقرر تھا۔ملک میں شدید سیلاب نے زراعت سمیت دیگر اقتصادی شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ فصلوں کی شرح نمو منفی 2.49 فیصد رہی۔ اہم فصلوں کی گروتھ منفی 3.20 فیصد رہی جبکہ فصلوں کی گروتھ کاہدف 3.5 فیصد مقرر تھا۔ لائیو سٹاک کی ترقی کی شرح نمو 3.78 فیصد رہی جبکہ اس کا ہدف 3.7 فیصد مقرر تھا۔ فشریز کے شعبے کی گروتھ 1.44 فیصد رہی جس کا ہدف 6.1 فیصد تھا۔جنگلات کے شعبے کی شرح نمو 3.93 فیصد رہی۔ اس کا ہدف 4.5 فیصد مقرر تھا۔ صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی اور اس کا ہدف 5.9 فیصد تھا۔ علاوہ ازیں بڑی صنعتوں کی گروتھ 7.4 فی صد ہدف کے برعکس منفی 7.98 فیصد رہی۔ چھوٹی صنعتوں کی گروتھ 9.03 فیصد رہی جب کہ ہدف 8.3 فیصد تھا۔
اسی طرح بجلی، گیس اور پانی فراہمی کی شرح نمو 6.03 فیصد رہی جبکہ ان کا ہدف 3.5 فیصد تھا۔ تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو منفی 5.53 فیصد رہی جس کا ہدف 4 فیصد تھا۔ انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے شعبوں کی گروتھ 6.93 فیصد رہی اور اس کا مقررہ ہدف 6 فیصد تھا۔ علاوہ ازیں، رئیل سٹیٹ سرگرمیوں کی گروتھ 3.72 فیصد رہی جبکہ اس کا ہدف 3.8 فی صد تھا۔تعلیم کے شعبے کی گروتھ 4.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں 10.44فیصد رہی۔اقتصادی سروے کے مطابق، رواں مالی سال ملکی معیشت کو سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا رہا۔سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی گروتھ کم رہی۔ روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی سطح پرکموڈٹی پرائس میں اضافہ ریکارڈ ہوا جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ملکی معیشت کا حجم کم ہو کر341 ارب 50 کروڑ ڈالر پرآگیا جو سال 2021-22 میں ملکی معیشت کا حجم 375.4 ارب ڈالر تھا۔
دوسری جانب، بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے اپساس کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں صرف پانچ شعبوں میں ٹیکس چوری سے سالانہ 956 ارب روپے کے نقصان ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ، تمباکو، ٹائر اور آٹو لبریکنٹس، ادویہ اور چائے میں ٹیکس چوری سے قومی خزانے کو سالانہ بنیادوں پر ساڑھے نو سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے اور اگر صرف ان پانچ شعبوں میںہونے والی ٹیکس چوری پر قابو پالیا جائے تو اس سے پاکستان کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی کل لاگت کو پورا کیا جا سکتا ہے جبکہ اس رقم سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مکمل مالی اعانت بھی کی جاسکتی ہے۔
ادھر، سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ’چارٹر آف اکانومی‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میثاقِ معیشت پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ میثاقِ جمہوریت اور میثاقِ معیشت کے تحت طویل مدتی پالیساں بنانے کی ضرورت ہے۔ چین نے پچاس سال کی منصوبہ بندی کی ،ہمیں بھی اس کی طرح مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت پانچ دس سال کے لیے نہیں، نسلوں کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں محدود مائنڈ سیٹ سے نکل کر معیشت کے لیے کام کرنا ہوگا۔ آصف علی زرداری نے مزید کہا کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں ، ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے ،انفرادی کے بجائے اجتماعی سطح پر سوچنا ہو گا۔ سابق صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے بات کروں گا تاکہ انھیں اس کے لیے آن بورڈ لیا جا سکے، میثاق معیشت پچاس سال کے لیے ہونا چاہیے۔
میثاقِ معیشت واقعی وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت معاشی معاملات کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی کیونکہ عام طورپر معاشی سدھار پیدا کرنے کے لیے ایک طویل مدتی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر اس نے پچھلی حکومت یا حکومتوں کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشی استحکام پیدا کر بھی لیا تو اسے کریڈٹ نہیں ملے گا۔ اندریں حالات، تمام سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر میثاقِ معیشت کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی یہ نہ کہہ سکے کہ ملک میں آنے والا استحکام صرف اس کی دین ہے۔ رواں مالی سال کے اقتصادی سروے اور اپساس کی ٹیکس چوری سے متعلق رپورٹ نے آئینہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم اس میں اپنا چہرہ دیکھ کر اس پر موجود داغوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔