بیسویں گریڈکے اساتذہ کی محرومی
بجٹ کے موقع پر سرکاری اورنجی اداروں کے ملازمین نے ہرسال کی طرح اپنی تنخواہوںکے حوالے سے چہ می گوئیاں شروع کردی ہیں۔چاروں طرف سے ’کتنے فی صد؟ کتنے فی صد؟‘ کی صدائیں بلندہورہی ہیں۔ بجٹ کے آتے ہی سرکاری ملازمین خواب وخیال کی دنیامیں چلے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خواب انھیں چنددنوں کیلئے مسرورکردیتے ہیں لیکن بڑی بڑی خوش خبریاں بالآخر ’سمندرسے ملے پیاسے کوشبنم‘والی بات تک آ کررک جاتی ہے۔ایک زمانہ تھاجب تمام محکمہ جات میں تنخواہوں کا نظام تقریباً یکساں تھا۔ چندسال پہلے مراعات اور الاو¿نسز کی ذیل میں چند محکموں کوخصوصی مراعات سے نوازا گیا۔اس سے تنخواہوں کا توازن بری طرح خراب ہوا۔یہاں تک کہ بات ’قصہ ¿ برہمن وشودر‘تک جاپہنچی۔بااثراور طاقت ورمحکموں کے ملازمین مراعات کی مدمیں بھاری الاﺅنس لے رہے ہیں۔یتیم اورلاوارث محکموں کا ذکر آجائے تو قومی خزانے پر بوجھ قرار دے کر سمری ہی ردکردی جاتی ہے۔ملازمین کی تنخواہوں میں گزشتہ دس سال سے ہونےوالے اس عدم توازن سے معیارِ زندگی میں توازن قائم نہیں رہا۔مثال کے طورمحکمہ تعلیم کے گریڈ 16یا17 کے ملازم کی تنخواہ شایدہی عدلیہ ، نیب، ایف آئی اے ، وزارت داخلہ، ڈی ایم جی اورسکریٹریٹ کے کلرک کے برابرہو۔ہمارے ملک میں سکیل کے لحاظ سے تنخواہوں کا نظام انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔یہاں تک کہ ماضیِ قریب کی ایک سیاسی جماعت جوانصاف کے نام پرووٹ لےکرحکومت میں آئی تھی، اس کی حکومت میں سرکاری ملازمین کیساتھ ناانصافی میں باقاعدہ اضافہ ہوا۔ ہمارے ہاں استاد بے چارہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کودل میں لیے دنیاسے رخصت ہوتا ہے۔ ہم اس نبی ﷺ کے امتی ہیں جومعلم اخلاق ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ میں تعلیم وتعلم ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔برصغیرکی متنوع معاشرت میں تعلیم اور معلم کوہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی ۔مغلیہ دورمیں بھی اتالیق کی حالت ناقابل ترس تھی۔وہ عیدکے موقع پر نظم لکھ کر شاگردکوپیش کرتا جس کے صلے میں اسے عیدی ملتی تھی۔ اردو ادب میں ’عیدی‘کے نام سے باقاعدہ ایک شعری صنف موجود ہے جس کے تفصیلی بیان کایہ محل نہیں۔موجودہ معاشی تنگ دستی کی صورتحال میں ملازم پیشہ طبقہ سب سے زیادہ متاثرہواہے۔بس وہ اپنے گریڈوں کے ’سنہری تاج‘کوسرپر سجاکر مستقبل کے خواب دیکھ رہاہے۔مراعات یافتہ طبقے کے نزدیک سالانہ بجٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں،یہ طبقہ خاموشی سے اپنی مراعات اورالاو¿نسزمیں اضافہ کرلیتاہے۔ بعض محکموں کے ملازمین سرکاری گھروں،یوٹیلٹی الاﺅنسوں ، میڈیکل کی سہولیات اورسرکاری گاڑیوں کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔’برہمن محکموں‘ سے منسلک افسران بنیادی تنخواہ کا ایک سوپچاس فیصد مراعات کے طورپروصول کررہے ہیںجبکہ اعلیٰ گریڈوں میں ترقی پانے کے بعد اساتذہ کی مالی حالت پہلے سے بھی مخدوش ہوگئی ہے۔ان اساتذہ میں سے اکثریت پی ایچ ڈی ڈاکٹرزکی ہے۔ ارباب اختیار کی معلومات کیلئے انکی معروضات پیش خدمت ہیں:
ا۔ مالی سال 2021-2022ءکے بجٹ میں وفاقی ملازمین (گریڈ 1 تا 22) کو بنیادی تنخواہ پر 25 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الا¶نس یا اسپیشل الا¶نس دیا گیا۔ اسی طرز پر حکومت پنجاب/ ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ /سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے گریڈ بیس کے سوا اپنے تمام ملازمین (گریڈ1 تا 19) کو مذکورہ خصوصی الا¶نس دیدیا۔ ب۔ یکم مارچ 2022ءکو وفاقی حکومت کی جانب سے ملازمین (گریڈ1 تا 22) کو بنیادی تنخواہ پر مزید 15 فیصد خصوصی الا¶نس دیا گیا۔اسی طرز پر حکومت پنجاب/ ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ/سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک بار پھر گریڈ 20 کے ملازمین/اساتذہ کے سوا دیگر اساتذہ (بی ایس 1 تا19) کو خصوصی الا¶نس دیدیا۔ج۔ یوں مجموعی طور پر حکومت پنجاب کی جانب سے کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ (گریڈ 1 تا 19) کو بنیادی تنخواہ پر کل 40 فیصد خصوصی الا¶نس دیا گیا ہے جبکہ انھی محکموں کے گریڈ 20 کے ملازمین و اساتذہ کو مذکورہ خصوصی الا¶نس سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا ہے۔د۔ بدقسمتی سے حکومت پنجاب کے دو محکموں ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے گریڈ 20 اوراس سے اوپرکے ملازمین ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے اور متعدد درخواستوں کے باوجود مذکورہ 40 فیصد خصوصی الا¶نس سے محروم ہیں جو کہ ناانصافی اور امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ہ۔ اس معاشی ناانصافی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن اور محکمہ سکول ایجوکیشن کے گریڈ 19 اور بعض صورتوں میں گریڈ 18 کے ملازمین/اساتذہ کی تنخواہیں گریڈ 20 اوراس سے اوپرکے ملازمین/ اساتذہ کی تنخواہوں سے بڑھ گئی ہیں۔جس سے ان محکموں کے گریڈ 20 کے ملازمین/اساتذہ میں بے حد بے چینی اور احساسِ محرومی پایا جاتا ہے۔مزید یہ کہ گریڈ 20 کے ان ملازمین/اساتذہ کو دیگر محکموں کی طرح کسی بھی طرح کا ایگزیکٹو الا¶نس (جو کہ بنیادی تنخواہ کا 150 فیصد ہوتا ہے) بھی نہیں ملتا۔
حکومت پنجاب سے التماس ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن اور محکمہ سکول ایجوکیشن کے گریڈ 20 سے اوپر کے ملازمین/اساتذہ/پروفیسرز کو فی الفور خصوصی الا¶نس (بنیادی تنخواہ پر 40 فیصد) مع واجبات دے کر معاشی عدم مساوات اور ناانصافی کو ختم کیا جائے۔ اپنے استادکوآپ سنگھاسن پرنہ بٹھائیں لیکن خدارا اس کی سماجی حیثیت ضرور بحال کردیں،بس اتنی سی گزارش ہے۔