حیرتوں کا اک جہان.... چین
اپریل 2023ءکے وسط میں ایک چینی سفارت کار نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا مئی کے آخری ہفتے میں چین جانے کیلئے دستیاب ہوں گے۔ میرے لئے یہ لمحہ انتہائی مسرور کن تھا۔ کون ہے جو چین نہیں جانا چاہتا ؟ خصوصاً میرے لئے، جو پچھلے چار سال سے مسلسل بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and Road Initiative) پر نوائے وقت میں لکھ رہا ہوں، یہ ایک نہایت خوشگوار بات تھی کیونکہ میں ابھی تک چین نہیں جا سکا تھا، چنانچہ جانے کی فوری حامی بھر دی۔ یہ سینئر میڈیا پرسنز، تھنک ٹینک، عالمی امور کے ماہر اور دانشوروں کے وفد کی تشکیل تھی۔ چینی قونصلیٹ نے مجھے گروپ سربراہ کی ذمہ داری سونپ کر ایک اور اعزاز سے نواز دیا۔ نوائے وقت گروپ کے ہی میرے ساتھی سپیشل کارسپانڈنٹ خاورعباس سندھو کو گروپ کا سیکرٹری جنرل بنادیا گیا اور یوں ایک بڑی ذمہ داری نوائے وقت گروپ کے حصے میں آگئی۔ دل میں خیال آیا کہ چین کی طرف سے میرے ادارے کو اس قدر پذیرائی کا جواب بھی ویسا ہی ہونا چاہیے۔ منیجنگ ڈائریکٹر رمیزہ مجید نظامی کی اجازت سے پاکستان کے مشہور شاہینوں کے شہر سرگودھا کی تحصیل سلانوالی سے ہینڈی کرافٹ تیار کرائے جسے مقامی کاریگروں کی کاریگری اور تانبے کے استعمال نے جاذب نظر بنادیا۔ خشک میوہ جات رکھنے کا یہ لکڑی کا باکس چینیوں کی پسندیدہ دستکاری اشیاءمیں شمار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ نوائے وقت گروپ کے تمام اداروں دی نیشن ، فیملی ، سنڈے میگزین ، پھول و وقت ٹی وی کے لوگوز پر مبنی لکڑی کی شیلڈز تیار کرائیں تاکہ چین میں ہمارے چینی بھائیوں کو تحائف سے اپنی بھرپور محبت کا اظہار کرسکیں۔ پاک چین دوستی اور پیپلز ٹو پیپلز رابطوں کے فروغ کے لئے ایسا اقدام ہماری طرف سے آئرن برادر کی باکمال دوستی کے اعتراف کا اظہار ہے۔
کچھ دنوں میں ویزا وغیرہ لگنے کے مراحل طے ہوئے جس میں گروپ سیکرٹری جنرل خاور عباس سندھو کا تعاون اور تابعداری شامل حال رہی۔ اسی دوران لاہور میں چین کے قونصل جنرل مسٹر ژاﺅ شیریں (Zhao Shiren) نے وفد کو قونصلیٹ میں مدعو کیا اور دورہ چین پر بات چیت ہوئی۔ چینی سفارتکار مسٹرچن بو (Chen Bo) نے ویزے کے حصول کا مرحلہ آسان بنا دیا۔ پاکستانی دستکاری اور نوائے وقت کی شیلڈ دینے کا آغاز بھی قونصل جنرل سے کیا، دونوں اشیاءکی کاریگری پر وہ خوب معترف نظر آئے۔
23مئی 2023 کی رات ہمارا وفد اسلام آباد ائیرپورٹ سے بیجنگ کیلئے روانہ ہو گیا۔ 24 مئی کی صبح تھی اور بیجنگ ایئرپورٹ پر میزبان چائنا اکنامک نیٹ کی مس کیٹی (Katie)، مس مشعل (Michalle) اور دو فوٹو گرافرز پر مشتمل ٹیم ہمارے استقبال کے لئے موجود تھی۔ اتنا بڑا ائیرپورٹ کہ امیگریشن کاو¿نٹر تک پہنچنے کے لئے شٹل ٹرین سروس اور کچھ پیدل سفر طے کیا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے تو حیرت کا ایک جہان وا ہوتا گیا۔ اندازے تو ائیرپورٹ سے مل گئے تھے کہ باہر کا جہاں کتنا کشادہ و خوبصورت ہوگا۔ ہر قدم پر بیجنگ کی خوبصورتی، شادابی اور صفائی ورطہ¿ حیرت میں ڈال رہی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف قطار اندر قطار سیدھے تنے ہوئے سرسبز و شاداب درخت ایستادہ تھے۔ چینی درختوں کو ٹیڑھا میڑھا نہیں ہونے دیتے، درختوں کی نشوونما کے عرصے میں انہیں سیدھا رکھنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹریفک کا ڈسپلن بے مثال ہے۔ پیدل چلنے والے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر چلنے والے اور گاڑیاں اپنی اپنی متعین لین پر چلتی ہیں۔ خلاف ورزی کا تصور مفقود ہے۔ ہمارے پورے قیام میں ہم نے کہیں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی نہیں دیکھی اور ہارن کی آواز نہیں سنی اور نہ ہی کہیں ٹریفک پولیس کا اہلکار نظرآیا۔ ٹریفک رولز کی پابندی چینی قوم کے نظم و ضبط کا عکاس تھا۔ سارا ٹریفک نظام کیمروں کے ذریعے کنٹرول میں ہے۔ سڑکوں کے اطراف میں کھلے ہوئے پھولوں کے تختے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ بیجنگ میں چلنے والی بسیں بجلی سے چلتی ہیں۔ موٹر سائیکلیں بھی بیٹری پر چلتی ہیں لہٰذا اتنی بڑی آبادی کا شہر ہونے کے باوجود فضائی آلودگی کے آثار نہیں ہیں۔ سڑ کوں پر خوب چہل پہل ہے لیکن سب کچھ اپنے اپنے متعین کردہ راستوں پر۔ فٹ پاتھوں کے ساتھ سائیکلیں کھڑی ہیں۔ یہ سائیکلیں خاص طور پر رش والے ایریاز جیسے شاپنگ مالز، بازار، دفاتر اور رہائشی علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ موبائل ایپ کے ذریعے سائیکل کا لاک کھولیں اور جانب منزل روانہ ہو جائیں۔ ایکسرسائز اور صحت بھی ساتھ میں مل رہی ہیں۔بیجنگ شہر میں پہنچتے ہی ایک ریسٹورنٹ میں نہایت پرتکلف حلال چینی کھانوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ میزبان China Economic Net کی ڈائریکٹر مس Yin نے ہمارا استقبال کیا اور ہمارے ساتھ اکٹھے کھانے کھایا۔ ہمیں Beijing Huabin International Hotel میں ٹھہرایا گیا۔ ہوٹل کا محل وقوع نہایت شاندار اور اہم جگہ پر ہے جس کے اردگرد اہم اداروں کے دفاتر ہیں۔ ہوٹل پہنچتے ہی مس مشعل (Michalle) نے تازہ دم ہونے کے بعد لابی میں جمع ہونے کو کہا تاکہ پیلس میوزیم (Palace Museum and Forbidden City) کی سیر کو جا سکیں۔
ہم سب کشاں کشاں بیجنگ کے وسط میں واقع پیلس میوزیم پہنچے تو وہاں حیرتوں کا ایک جہان آباد تھا۔ یہ شاہی محل 1406 سے 1420ءکے دوران منگ خاندان کے تیسرے شہنشاہ یونگل (Yongle) (1403-1420) کے دور میں تعمیر ہوا۔ اسے Forbidden City بھی کہا جاتا ہے۔ محل چینی طرزِتعمیر کا نہایت شاندار نمونہ ہے۔ محل میں موجود پینٹگز، کیلی گرافی کے نادر نمونے پورسلین اور سرامکس کے ظروف، گھڑیاں، کتابیں، قلمی مسودے اور نوادرات اسے چین کا نہایت شاندار ثقافتی ورثہ بناتے ہیں۔ 1987 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا۔ تقریباً 500 سال کے عرصے میں یہ محل 24 بادشاہوں کی قیام گاہ اور دربار کا درجہ حاصل کئے رہا۔ 1925 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق محل میں نوادرات اور اشیاءکی تعداد 1860,000 تھی۔ محلات کے اس سلسلے کے گرداگرد 10 میٹر اونچی دیواریں اور 52 میٹر چوڑی خندقیں (Moat) تعمیر کی گئی ہیں۔ شمالاً جنوباً اس کی لمبائی 961 میٹر اور شرقاً غرباً اس کی چوڑائی 753 میٹر ہے۔ کمپلیکس کا کل ایریا 1120000 مربع میٹر ہے۔ اس کی ہر سمت میں ایک بڑا گیٹ ہے۔ 6 مشرقی اور 6 مغربی محلات شاہی خاندان کے رہائشی حصے تھے۔ محلات کے بیرونی حصوں میں مختلف جانوروں اور پرندوں کے قدآور مجسمے چینی کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وفد کے ارکان نے نہایت دلچسپی سے ان محلات کا مشاہدہ کیا اور اس عظیم الشان طرزِ تعمیر اور عظیم ثقافتی ورثے کو سراہا۔ چینی عوام اور سیاح وہاں جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ ایک دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ نوبیاہتا جوڑے خصوصاً دلہنیں اپنے روایتی زرق برق چینی لباسوں میں زندگی کے یادگار لمحوں کو امر کرنے کیلئے فوٹوشوٹ کے لئے وہاں آتے ہیں۔
اگلے روز چائنا سینٹرل ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن سٹیشن کا دورہ میرے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ یہاں سے اردو پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ یہاں چینی عملہ کو نہایت روانی کے ساتھ اردو بولتے دیکھ کر نہایت خوشگوار حیرت ہوئی۔ بریفنگ بھی اردو زبان میں تھی۔ یہاں ایک سیمینار میں شرکت کی۔ یہاں چینی اور پاکستانی ثقافت کے نشر ہونے والے اردو پروگراموں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ایک چیز جو حیران کئے دے رہی تھی وہ چینی عوام کی پاکستان سے بے پناہ محبت کا اظہار تھا جو ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں چینی عوام پاکستان سے کرتے ہوئے نظر آئے۔ چینی عوام کی پاکستانیوں سے محبت کے مظاہر قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کے عملہ میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان میں زبیر بشیر اور شاہد افراز خان نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (جاری)
دنیا کے سات عجوبوں میں شامل دیوار چین کی سیر نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اہرامِ مصر تو ایک ہی جگہ پر تعمیر ہونے والا عجوبہ ہے لیکن دیوارِ چین تو انتہائی کٹھن، دشوارگزار، پیچیدہ، بلند اور طویل پہاڑی سلسلوں اور گھاٹیوں پر تعمیر کی گئی ہے۔قریباً اڑھائی ہزار سال قبل تعمیر ہونے والی 21,196 کلومیٹر طویل دیوار چین کی تعمیر کا آغاز چن شی ہوانگ کے دور حکومت میں ہوا جس نے چین کو (221-200) قبل مسیح میں متحد کر کے اپنی بادشاہت کا آغاز کیا۔ یہ دیوار بادشاہتوں (Dynesties) کے چھ مختلف ادوار میں تعمیر ہوتی رہی جس کا مقصد چین کی شمالی سرحدوں کو منگول اور دوسرے حملہ آوروں سے محفوظ بنانا تھا۔ دیوارِ چین کی تعمیر میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا جس میں سے 4 لاکھ لوگ تعمیراتی کام کے دوران مر گئے۔ ان میں سے بیشمار لوگوں کو دیوارِ چین میں ہی دفن کر دیا گیا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ لگا۔ دسمبر 1987ءمیں یونیسکو (Unesco) نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ دیوارِ چین نہایت دشوارگزار پہاڑوں، گھاٹیوں اور چوٹیوں پر سکائی لائن کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ دیوار میں جگہ جگہ Beacon، ٹاورز، بیریئر، بیرکس، گیریژن سٹیشنز، قلعے بندیاں اور خندقیں مل کر ایک مضبوط دفاعی نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ دیوارِ چین کی طاقت، اتحاد اور فخر کی علامت ہے۔ اس طویل دیوارِ چین کے کچھ حصے سیاحوں کے لئے کھولے گئے ہیں۔ اپنے میزبانوں کے ساتھ چیئر لفٹ کے ذریعے دیوارِ چین پر پہنچے تو حیرتوں کا ایک عالم وا ہو گیا۔ سخت چڑھائی پر ہانپتے ہوئے ایک چوکی (Post) کی چوٹی پر پہنچے تو یوں لگا جیسے ہم نے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کر لی۔ ایک احساسِ تفاخر سب کے چہروں پر عیاں تھا۔ بلاشبہ یہ دیوار بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ یقیناً یہ دیوار چینی قوم کی عظمت کی گواہی ہے۔
حیرتوں کا اک جہان.... چین
اپریل 2023ءکے وسط میں ایک چینی سفارت کار نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا مئی کے آخری ہفتے میں چین جانے کیلئے دستیاب ہوں گے۔ میرے لئے یہ لمحہ انتہائی مسرور کن تھا۔ کون ہے جو چین نہیں جانا چاہتا ؟ خصوصاً میرے لئے، جو پچھلے چار سال سے مسلسل بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and Road Initiative) پر نوائے وقت میں لکھ رہا ہوں، یہ ایک نہایت خوشگوار بات تھی کیونکہ میں ابھی تک چین نہیں جا سکا تھا، چنانچہ جانے کی فوری حامی بھر دی۔ یہ سینئر میڈیا پرسنز، تھنک ٹینک، عالمی امور کے ماہر اور دانشوروں کے وفد کی تشکیل تھی۔ چینی قونصلیٹ نے مجھے گروپ سربراہ کی ذمہ داری سونپ کر ایک اور اعزاز سے نواز دیا۔ نوائے وقت گروپ کے ہی میرے ساتھی سپیشل کارسپانڈنٹ خاورعباس سندھو کو گروپ کا سیکرٹری جنرل بنادیا گیا اور یوں ایک بڑی ذمہ داری نوائے وقت گروپ کے حصے میں آگئی۔ دل میں خیال آیا کہ چین کی طرف سے میرے ادارے کو اس قدر پذیرائی کا جواب بھی ویسا ہی ہونا چاہیے۔ منیجنگ ڈائریکٹر رمیزہ مجید نظامی کی اجازت سے پاکستان کے مشہور شاہینوں کے شہر سرگودھا کی تحصیل سلانوالی سے ہینڈی کرافٹ تیار کرائے جسے مقامی کاریگروں کی کاریگری اور تانبے کے استعمال نے جاذب نظر بنادیا۔ خشک میوہ جات رکھنے کا یہ لکڑی کا باکس چینیوں کی پسندیدہ دستکاری اشیاءمیں شمار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ نوائے وقت گروپ کے تمام اداروں دی نیشن ، فیملی ، سنڈے میگزین ، پھول و وقت ٹی وی کے لوگوز پر مبنی لکڑی کی شیلڈز تیار کرائیں تاکہ چین میں ہمارے چینی بھائیوں کو تحائف سے اپنی بھرپور محبت کا اظہار کرسکیں۔ پاک چین دوستی اور پیپلز ٹو پیپلز رابطوں کے فروغ کے لئے ایسا اقدام ہماری طرف سے آئرن برادر کی باکمال دوستی کے اعتراف کا اظہار ہے۔
کچھ دنوں میں ویزا وغیرہ لگنے کے مراحل طے ہوئے جس میں گروپ سیکرٹری جنرل خاور عباس سندھو کا تعاون اور تابعداری شامل حال رہی۔ اسی دوران لاہور میں چین کے قونصل جنرل مسٹر ژاﺅ شیریں (Zhao Shiren) نے وفد کو قونصلیٹ میں مدعو کیا اور دورہ چین پر بات چیت ہوئی۔ چینی سفارتکار مسٹرچن بو (Chen Bo) نے ویزے کے حصول کا مرحلہ آسان بنا دیا۔ پاکستانی دستکاری اور نوائے وقت کی شیلڈ دینے کا آغاز بھی قونصل جنرل سے کیا، دونوں اشیاءکی کاریگری پر وہ خوب معترف نظر آئے۔
23 جون 2023 کی رات ہمارا وفد اسلام آباد ائیرپورٹ سے بیجنگ کیلئے روانہ ہو گیا۔ 24 مئی کی صبح تھی اور بیجنگ ایئرپورٹ پر میزبان چائنا اکنامک نیٹ کی مس کیٹی (Katie)، مس مشعل (Michalle) اور دو فوٹو گرافرز پر مشتمل ٹیم ہمارے استقبال کے لئے موجود تھی۔ اتنا بڑا ائیرپورٹ کہ امیگریشن کاو¿نٹر تک پہنچنے کے لئے شٹل ٹرین سروس اور کچھ پیدل سفر طے کیا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے تو حیرت کا ایک جہان وا ہوتا گیا۔ اندازے تو ائیرپورٹ سے مل گئے تھے کہ باہر کا جہاں کتنا کشادہ و خوبصورت ہوگا۔ ہر قدم پر بیجنگ کی خوبصورتی، شادابی اور صفائی ورطہ¿ حیرت میں ڈال رہی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف قطار اندر قطار سیدھے تنے ہوئے سرسبز و شاداب درخت ایستادہ تھے۔ چینی درختوں کو ٹیڑھا میڑھا نہیں ہونے دیتے، درختوں کی نشوونما کے عرصے میں انہیں سیدھا رکھنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹریفک کا ڈسپلن بے مثال ہے۔ پیدل چلنے والے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر چلنے والے اور گاڑیاں اپنی اپنی متعین لین پر چلتی ہیں۔ خلاف ورزی کا تصور مفقود ہے۔ ہمارے پورے قیام میں ہم نے کہیں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی نہیں دیکھی اور ہارن کی آواز نہیں سنی اور نہ ہی کہیں ٹریفک پولیس کا اہلکار نظرآیا۔ ٹریفک رولز کی پابندی چینی قوم کے نظم و ضبط کا عکاس تھا۔ سارا ٹریفک نظام کیمروں کے ذریعے کنٹرول میں ہے۔ سڑکوں کے اطراف میں کھلے ہوئے پھولوں کے تختے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ بیجنگ میں چلنے والی بسیں بجلی سے چلتی ہیں۔ موٹر سائیکلیں بھی بیٹری پر چلتی ہیں لہٰذا اتنی بڑی آبادی کا شہر ہونے کے باوجود فضائی آلودگی کے آثار نہیں ہیں۔ سڑ کوں پر خوب چہل پہل ہے لیکن سب کچھ اپنے اپنے متعین کردہ راستوں پر۔ فٹ پاتھوں کے ساتھ سائیکلیں کھڑی ہیں۔ یہ سائیکلیں خاص طور پر رش والے ایریاز جیسے شاپنگ مالز، بازار، دفاتر اور رہائشی علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ موبائل ایپ کے ذریعے سائیکل کا لاک کھولیں اور جانب منزل روانہ ہو جائیں۔ ایکسرسائز اور صحت بھی ساتھ میں مل رہی ہیں۔بیجنگ شہر میں پہنچتے ہی ایک ریسٹورنٹ میں نہایت پرتکلف حلال چینی کھانوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ میزبان China Economic Net کی ڈائریکٹر مس Yin نے ہمارا استقبال کیا اور ہمارے ساتھ اکٹھے کھانے کھایا۔ ہمیں Beijing Huabin International Hotel میں ٹھہرایا گیا۔ ہوٹل کا محل وقوع نہایت شاندار اور اہم جگہ پر ہے جس کے اردگرد اہم اداروں کے دفاتر ہیں۔ ہوٹل پہنچتے ہی مس مشعل (Michalle) نے تازہ دم ہونے کے بعد لابی میں جمع ہونے کو کہا تاکہ پیلس میوزیم (Palace Museum and Forbidden City) کی سیر کو جا سکیں۔
ہم سب کشاں کشاں بیجنگ کے وسط میں واقع پیلس میوزیم پہنچے تو وہاں حیرتوں کا ایک جہان آباد تھا۔ یہ شاہی محل 1406 سے 1420ءکے دوران منگ خاندان کے تیسرے شہنشاہ یونگل (Yongle) (1403-1420) کے دور میں تعمیر ہوا۔ اسے Forbidden City بھی کہا جاتا ہے۔ محل چینی طرزِتعمیر کا نہایت شاندار نمونہ ہے۔ محل میں موجود پینٹگز، کیلی گرافی کے نادر نمونے پورسلین اور سرامکس کے ظروف، گھڑیاں، کتابیں، قلمی مسودے اور نوادرات اسے چین کا نہایت شاندار ثقافتی ورثہ بناتے ہیں۔ 1987 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا۔ تقریباً 500 سال کے عرصے میں یہ محل 24 بادشاہوں کی قیام گاہ اور دربار کا درجہ حاصل کئے رہا۔ 1925 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق محل میں نوادرات اور اشیاءکی تعداد 1860,000 تھی۔ محلات کے اس سلسلے کے گرداگرد 10 میٹر اونچی دیواریں اور 52 میٹر چوڑی خندقیں (Moat) تعمیر کی گئی ہیں۔ شمالاً جنوباً اس کی لمبائی 961 میٹر اور شرقاً غرباً اس کی چوڑائی 753 میٹر ہے۔ کمپلیکس کا کل ایریا 1120000 مربع میٹر ہے۔ اس کی ہر سمت میں ایک بڑا گیٹ ہے۔ 6 مشرقی اور 6 مغربی محلات شاہی خاندان کے رہائشی حصے تھے۔ محلات کے بیرونی حصوں میں مختلف جانوروں اور پرندوں کے قدآور مجسمے چینی کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وفد کے ارکان نے نہایت دلچسپی سے ان محلات کا مشاہدہ کیا اور اس عظیم الشان طرزِ تعمیر اور عظیم ثقافتی ورثے کو سراہا۔ چینی عوام اور سیاح وہاں جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ ایک دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ نوبیاہتا جوڑے خصوصاً دلہنیں اپنے روایتی زرق برق چینی لباسوں میں زندگی کے یادگار لمحوں کو امر کرنے کیلئے فوٹوشوٹ کے لئے وہاں آتے ہیں۔
اگلے روز چائنا سینٹرل ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن سٹیشن کا دورہ میرے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ یہاں سے اردو پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ یہاں چینی عملہ کو نہایت روانی کے ساتھ اردو بولتے دیکھ کر نہایت خوشگوار حیرت ہوئی۔ بریفنگ بھی اردو زبان میں تھی۔ یہاں ایک سیمینار میں شرکت کی۔ یہاں چینی اور پاکستانی ثقافت کے نشر ہونے والے اردو پروگراموں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ایک چیز جو حیران کئے دے رہی تھی وہ چینی عوام کی پاکستان سے بے پناہ محبت کا اظہار تھا جو ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں چینی عوام پاکستان سے کرتے ہوئے نظر آئے۔ چینی عوام کی پاکستانیوں سے محبت کے مظاہر قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کے عملہ میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان میں زبیر بشیر اور شاہد افراز خان نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (جاری)
دنیا کے سات عجوبوں میں شامل دیوار چین کی سیر نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اہرامِ مصر تو ایک ہی جگہ پر تعمیر ہونے والا عجوبہ ہے لیکن دیوارِ چین تو انتہائی کٹھن، دشوارگزار، پیچیدہ، بلند اور طویل پہاڑی سلسلوں اور گھاٹیوں پر تعمیر کی گئی ہے۔قریباً اڑھائی ہزار سال قبل تعمیر ہونے والی 21,196 کلومیٹر طویل دیوار چین کی تعمیر کا آغاز چن شی ہوانگ کے دور حکومت میں ہوا جس نے چین کو (221-200) قبل مسیح میں متحد کر کے اپنی بادشاہت کا آغاز کیا۔ یہ دیوار بادشاہتوں (Dynesties) کے چھ مختلف ادوار میں تعمیر ہوتی رہی جس کا مقصد چین کی شمالی سرحدوں کو منگول اور دوسرے حملہ آوروں سے محفوظ بنانا تھا۔ دیوارِ چین کی تعمیر میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا جس میں سے 4 لاکھ لوگ تعمیراتی کام کے دوران مر گئے۔ ان میں سے بیشمار لوگوں کو دیوارِ چین میں ہی دفن کر دیا گیا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ لگا۔ دسمبر 1987ءمیں یونیسکو (Unesco) نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ دیوارِ چین نہایت دشوارگزار پہاڑوں، گھاٹیوں اور چوٹیوں پر سکائی لائن کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ دیوار میں جگہ جگہ Beacon، ٹاورز، بیریئر، بیرکس، گیریژن سٹیشنز، قلعے بندیاں اور خندقیں مل کر ایک مضبوط دفاعی نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ دیوارِ چین کی طاقت، اتحاد اور فخر کی علامت ہے۔ اس طویل دیوارِ چین کے کچھ حصے سیاحوں کے لئے کھولے گئے ہیں۔ اپنے میزبانوں کے ساتھ چیئر لفٹ کے ذریعے دیوارِ چین پر پہنچے تو حیرتوں کا ایک عالم وا ہو گیا۔ سخت چڑھائی پر ہانپتے ہوئے ایک چوکی (Post) کی چوٹی پر پہنچے تو یوں لگا جیسے ہم نے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کر لی۔ ایک احساسِ تفاخر سب کے چہروں پر عیاں تھا۔ بلاشبہ یہ دیوار بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ یقیناً یہ دیوار چینی قوم کی عظمت کی گواہی ہے۔