جمعة المبارک‘ 19 ذیقعد‘1444ھ‘ 9 جون 2023ئ
پہلے لوگوں کو امیر کریں پھر ٹیکس لگائیں۔زرداری
بڑے کمال کی بات ہے۔ زرداری صاحب ایک معاشی ماہر بن کر اب مشورے بھی دینے لگے ہیں۔ اس سے قبل پورا ملک ان کے سیاسی کمالات کا معترف تھا۔ اب لوگ معاشی معاملات میں ان کی سوچ سے بھی آگاہ ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کو امیر کیسے کریں۔ مادی وسائل پر تو ان جیسے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جتنے قومی وسائل ہیں ان پر عوام کا حق ہونے کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں دیا جا رہا۔اشرافیہ لوٹ کر کھا رہے ہیں تو کون امیر ہو گا ۔لوگوں کے پاس تو زندگی بسر کرنے کے وسائل بھی نہیں رہے۔ ہاں اگر زرداری صاحب کے مشورے کے مطابق واقعی کوئی حکومت عوام کو غربت کے دائرے سے نکال کر آسودگی کے دائرے میں لائے تو پھر حکمرانوں کا حق ہے کہ وہ ان پر ٹیکس لگائیں جو خوشحال ہونے والے لوگ آسانی سے بخوشی ادا کریں گے۔ مگر اس فلسفے میں بھی جھول ہے۔ حالات و واقعات اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ پورے ملک کی بات چھوڑیں اس وقت جو 15 یا 20 فیصد لوگ متمول ہیں اشرافیہ میں شامل ہیں۔ وہ اس فلسفہ خوشحالی کے مطابق کیوں ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اس فلسفے پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ ٹیکس چوری ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے وہ اس کام میں ماہر ہو چکے ہیں۔
سارا ملک لوٹ کر کھانے والی یہ اشرافیہ لالچ کی بیماری میں مبتلا ہے۔ جسمانی اور ذہنی بیماریاں ان کو گھیرے رہتی ہیں۔ آرام و سکون ان سے چھینا جا چکا ہے مگر قسم لے لیں دولت کی ہوس کم نہیں ہو رہی۔ دال، سبزی ڈبل روٹی اور ادویات پر زندہ رہنے والے دوقدم چلتے ہیں تو سانس پھول جاتی ہے۔ مگر پھر بھی لوٹ مار کی حسرتیں ان کے دلوں میں جوان رہتی ہیں۔ اگر عوام کو امیرکرنے کی خواہش سچی ہے تو اشرافیہ کو اپنی دولت کے منہ اور قومی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنا ہو گا۔ دولت جمع کرنے جائیدادیں خریدنے ٹیکس چوری کرنے سے نجات پانا ہو گا۔ یاد رکھنا ہو گا کہ صرف 6 فٹ زمین ہی سب کی طرح ان کا بھی حصہ اورمقدر ہے۔ باقی سب ہوس ہے۔
٭٭٭٭٭
فیصل آباد جیل میں بند 2 قیدیوں کا مختلف شخصیات کو دھمکی آمیز فون
یہ صرف ایک شہر کا رونا نہیں۔ ہر بڑی یا خطرناک جیل میں مثال کے طور پر مچھ جیل میانوالی جیل ، سکھر جیل وغیرہ میں بند سینکڑوں خطرناک مجرم موبائل فونز اور اپنے گماشتوں کی مدد سے بڑے بڑے لوگوں کو بھتے کے لیے دھمکاتے ہیں۔ ان کے قتل کی سپاری لیتے اور دیتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کو ب±را نہ لگے تو عرض ہے کہ جیلوں کا عملہ بھی اس کام میں معقول معاوضے کے عوض ان کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ پیسے والے بااثر خطرناک مجرمان کو جیلوں میں ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان سے ملنے کے لیے آنےوالوں کو پروٹوکول ملتا ہے۔ وہ تنہائی میں گھنٹوں باتیں کرتے اور فون پر اپنا کام کرتے ہیں ان کی پرچیاں باہر جاتی ہیں۔ کیا یہ ملی بھگت کے بغیر ممکن ہے۔ ایسی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے ان قیدیوں کی مزے سے رہنے اور تنہائی کی ملاقاتوں پر پابندی لگانا ہو گی۔ انہیں واقعی کڑے پہرے اور آہنی پنجرے میں رکھنا ہو گا تاکہ انہیں پتہ چلے کہ وہ قید ہیں۔ یہ عجیب نظام ہے ہمارے ہاں جہاں حقیقت میں سنگ پابند اور سنگ آزاد نظر آتے ہیں۔ قدم قدم پر قانون سے کھلواڑ ہوتا ہے۔ طاقت ور جیلوں میں بیٹھ کر بھی غیر قانونی کام کرتے ہیں۔ قانون ان کے آگے بے بس کیوں نظر آتا ہے جو قانون کے رکھوالے ہیں ان پر گرفت پہلے کی جائے کہ وہ کیوں قانون شکنی کی راہ اپناتے ہیں۔ اب جیل کے عملے کے ساتھ ان بااثر قیدیوں کو بھی پہلی قسط کے طور پر کڑی سزا دے کر بتایا جائے کہ آئندہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا انجام بھی بخیر نہ ہو گا۔ گزشتہ روز ہی گوجرہ نادرا کے ڈائر یکٹر اور کمپیوٹر آپریٹرکو 50 لاکھ روپے تاوان دے کر اغواکرنے والوں سے چھڑایا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
چیئرمین پی سی بی کی تعیناتی پر مسلم لیگ (نون) اور پی پی پی میں تناﺅ
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی تعیناتی نہ ہوا مسئلہ کشمیر ہو گیا جس کا حل دو ممالک کے درمیان تناﺅ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس پ±رکشش عہدے پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف نجم سیٹھی کو لانا چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہ انتخاب وہی ہیں۔ جی ہاں وہی چڑیا والے بابا جن کی چڑیا دور دور کی خبریں لاتی ہے۔ ان پر ایک مرشد کہلانے والے رہنما نے 35 پنکچر لگانے کی بات بھی کی تھی اب خود سو مقدمے بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف آصف زرداری اپنے دوست ذکا اشرف کو اس عہدہ جلیلہ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ”وہ بھی وفاداری بشرط استواری“ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ اپنے دوستوں خاص طور پر برے وقت کے دوستوں کو تو بالکل نہیں بھولتے۔ یوں اب اس عہدے کے لیے دو ٹیمیں بن گئی ہیں ایک سیٹھی الیون ہے دوسری اشرفی الیون ہے۔ دیکھ لیں یہاں بھی ”مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ“ والی مثال کیسے سامنے آ رہی ہے۔ سیٹھ بھی دولت والا ہوتا ہے۔ اشرفیاں بھی مالداروں کے پاس ہوتی ہیں۔ اب ان دو میں سے کس کے سر پی سی بی کی چیئرمین کا تاج سجتا ہے جلد سامنے آئے گا۔ ویسے بھی یہ کوئی اتنا بڑا تنازعہ نہیں بن سکتا۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں کھیلنے کے لیے انہیں کھیلوں کے میدان میں ا±لجھنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔۔ ا±لجھنے کے لیے اور بہت سے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ سیاسی میدان میں انہیں ایک ایسے کپتان کا سامنا ہے جو جارحانہ موڈ میں ہے اور باﺅنسر مارنے پر تلا ہوا ہے۔ اس لیے فی الحال لیگی ہوں یا پی پی دونوں کو اس پر نظر رکھنا ہو گی کہیں وہ ان کی غفلت یا باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر ان کی وکٹیں ہی نہ ا±ڑا دے۔
٭٭٭٭٭
”مزیدار ہے“ لائیو کنسرٹ کے دوران امریکی گلوکارہ کے منہ میں مکھی چلی گئی
اس ناگہانی صورتحال میں بے چاری گلوکارہ کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ کھانستے کھانستے ادھ موئی ہو جاتی اور پروگرام چھوڑ دیتی یا پھر قسمت کے لکھے پر راضی ہو کر وہی کرتی جو اس نے کیا کہ مکھی کو نگل لیا اور اس پر بے ساختہ جملہ کہاکہ ”مزیدار ہے“ یوں بات آئی گئی ہو گئی اور ان کا پروگرام جاری رہا اسے کہتے ہیں بروقت فیصلہ۔ماضی قریب میں جب پاکستان میں رونا لیلیٰ ایک نوجوان گلوکارہ کے طور پر فلم انڈسٹری میں مقبولیت کے عروج پر تھیں۔ ان کی ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ چشمک کی خبریں بھی چلتی تھیں جن کا نقارخانے میں طوطی بولتا تھا۔ اسوقت سوشل میڈیا کا دور تو تھا نہیں کہ منٹوں میں سچ یا جھوٹ سب لوگوں کے سامنے آتا۔ بس افواہ ا±ڑائی جاتی اور لوگ اسے س±ن کر مزے مزے لے لے کر آگے پھیلاتے۔ اس زمانے میں رونا لیلیٰ کے حوالے سے نور جہاں کے محبان نے ایسی ہی افواہ اڑائی جس کی تصدیق یا تردید کسی نے نہیں کی۔ مگر خبر کے طور پر بہت سے لوگ اسے مان گئے کہ ایسا ہی ہوا ہے کہ رونا لیلیٰ کے منہ میں گاتے ہوئے مکھی چلی گئی تھی۔ رہی بات اس کے نگلنے یا اگلنے کی تو یہ اس کی کوئی رپورٹ کسی کے پاس نہیں۔ ایسے انہونے اورانوکھے واقعات بے شمار لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں شاید ہی کوئی توجہ دیتا ہے۔ کئی محاورے بھی ہیں مثال کے طور پر ”آنکھوں دیکھی مکھی نگلی نہیں جاتی“ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیکھ کر کون مکھی نگلتا ہے۔ ایساتو تب ہوتا ہے جب مکھی آنکھ بچا کر منہ میں داخل ہوتی ہے اور سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭٭