اوورسیز پاکستانیوں، کاروباری خواتین ، صنعت، زراعت کیلئے مراعات، نوجوانوں کو قرضے، لیپ ٹاپ ملیں گے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی بجٹ 24-2023 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولیات دینے کے لیے بھی تجاویز رکھی گئی ہیں۔ وفاقی بجٹ کی سامنے آنے والی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زر مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ قانونی طریقے سے زرمبادلہ کو فروغ کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ 2 فیصد فائنل ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ زرمبادلہ کارڈز کی کیٹگری میں ایک نئے ”ڈائمنڈ کارڈ“ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد زرمبادلہ بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس کیٹگری کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔ ایک غیر ممنوعہ بور اسلحے کا لائسنس،گریٹس پاسپورٹ (اس قسم کا پاسپورٹ اہم سرکاری شخصیات کو دیا جاتا ہے) پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں تک ترجیحی رسائی، پاکستانی ائیر پورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن کی سہولت، Remittance Card Holders کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسٹیٹ بینک کے ذریعے اسکیم کا اجراوفاقی حکومت نے سالانہ بجٹ میں دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خطیر رقم رکھی ہے۔وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے۔تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں،یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا، اس فنڈ کے قیام کا مقصد ہے کہ کوئی بھی ہونہار طالبعلم وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہو۔لیپ ٹاپ اسکیم جس کو صوبہ پنجاب میں 18-2013 کے دوران بڑی کامیابی سے چلایا گیا تھا، رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے ضرورت مند طالبعلموں میں ایک لاکھ لیپ ٹاپس میرٹ پر تقسیم کیے۔اس اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔آئندہ مالی سال 2023-24 میں زرعی شعبے کے لیے 2250ارب روپے قرضوں کی مد میں مختص کیے ہیں آئندہ مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کوشمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا جس کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں بجٹ دستاویزات کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 میں زرعی شعبے کے لیے 2250 ارب روپے قرضوں کی مد میں مختص کیے ہیں آئندہ مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویل کو۔ شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا جس کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیںاسی طرح سے سے کمبائن ہارویسٹر پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے ایگرو انڈسٹری کے فروغ کے لیے سکیم پر پانچ ارب روپے خرچ کیے جائیں گے زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے لیے دیہی علاقوں میں لگائے جانے 80 کروڑ روپے کی مالیت کے یونٹس کو پانچ سال کے لیے تمام ٹیکسوں سے چھوٹ دی گئی ہے اسی طرح بزنس فار ایگریکلچر لون سکیم کے تحت جاری قرضوں کو مارک اپ کے لیے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے کم مارک اپ پر زرعی قرضوں کے لیے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اسی طرح سے درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے سیڈر، پلانٹر اور ڈرائر پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔بجٹ میں ایگرو انڈسٹری کو اعایتی قرض کی فراہمی کیلئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اجناس بالخصوص پھل اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا احتمال بھی کم کیا جا سکتا ہے،دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے ایگرو انڈسٹری یو نٹس جن کا سالانہ ٹرن اوور 80 کروڑ روپے تک ہو گا ان کو تمام ٹیکسز سے5سال کیلئے مکمل استثنی حاصل ہو گا۔ یوتھ ایگری لون کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کیلئے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کیلئے 10ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کیلئے اگلے سال کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کئے جائیں گے۔ اس مد میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے بجٹ میں 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں سکل ڈویلپمنٹ کاروبار کے لئے سستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لئے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے،ہمارے ملک کے نوجوان حکومت کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ آج کے نوجوان ہی اس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ وہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ آئندہ تین برس تک کسی نوجوان یا نوجوانوں پر مشتمل AOPکی طرف سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 50فیصد تک کمی کی جائے۔ یہ رعایت Individualیا AOPکی صورت میں بیس لاکھ روپے تک اور Companyکی صورت میں پچاس لاکھ روپے تک ہوگی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضرورت ہے کہ کاروبار کے مالک کی عمر تیس سال تک ہو اور یہ کاروبار یکم جولائی 2023 یا اس کے بعد شروع کیا جائے۔ اس سے کاروبار سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور نئے بزنس آئیڈیاز رکھنے والے بزنس لیڈرزسامنے آ سکیں گی۔پرائم منسٹر یوتھ لون پروگرام کے تحت اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لئے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پرایم منسٹر یوتھ سکل پروگرام کے تحت نوجوانوں کو خصوصی تربیت دینے کے لئے 5ارب روپے مختص کیے ہیں۔تعمیراتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تعمیراتی شعبہ سے چالیس سے زیادہ صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ Builders اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لئے آئندہ تین سال تک Construction Enterprise کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے دونوں میں جو رقم کم ہو رعایت دی جائیگی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک دس فیصد ٹیکس کریڈٹ یا دس لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے اس کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔رئیل سٹیٹ سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔