الیکشن وقت پر، ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی نہیں ہوگی : وزیر خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت کے بعد اب معاشی قوت بنانا ہے، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں ، دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، کھانے کے تےل کی درآمد پر پر جی اےس ٹی ختم نہےں کےا ، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، جو لوگ یہ ڈیفالٹ، ڈیفالٹ کی رٹ لگاتے ہیں وہ خود ذمے دار ہیں، 30 جون تک آئی ایم ایف کی بات رہنے دیں لیکن اگر آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آ جاتا، پلان بی پر پبلک مےں بات نہےں ہو سکتی ، پیرس کلب کی ری شیڈولنگ کا ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے، عالمی اداروں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی طرف نہیں جا رہے ، ہم قرضوں کی بروقت ادائیگی کریں گے اور میرا نہیں خیال کہ یہ مناسب ہو گا کہ ہم انہیں کہیں کہ ہم رقم ادا نہیں کر سکتے، اگلے مالی سال کیلئے ساڑھے تین فیصد جی ڈی پی کا ہدف باآسانی حاصل ہوجائے گا، آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے پاکستان کی جی ڈی پی ساڑھے تین فیصد رہے گی، اگلے بجٹ میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے سب سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ، اللہ کرے ہم قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں میں کمی کرسکیں،مشکل معاشی فیصلوں کے ذریعے گراوٹ کا عمل رک چکا ہے اور معیشت کی بحالی کے بعد اب ہم نے معیشت کو نمو کی طرف لیکر جانا ہے اور اسے دوبارہ دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانا ہے، تنخواہوں میں اضافہ بنیادی تنخواہ پر ایڈہاک ریلیف کی صورت میں دیا جائے گا۔ ، دفاعی بجٹ حقےقت پسندانہ ہے اور ےہ مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد ہے جو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے، کوشش ہے کہ جولائی تک پہلے ایئرپورٹ کی آﺅٹ سورسنگ کے حوالے سے بولی مانگ لی جائے ، ہر سال ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی کے متحمل نہیں ہو سکتے ، بجٹ میں کسی نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان نہیں کیا گیا، سرکاری اور نجی شعبہ مل کر چلیں گے تو معیشت کا پہہ چلے گا، ہمارا بحران شدےد تھا جس سے نکلنے مےں کامےاب ہو گئے ہےں ،جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا،وزےر خزانہ نے ان خےالات کا اظہار پوسٹ بجٹ پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کےا ،اس موقع پر وزےرمملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا اور اکنامک ٹےم کے دوسرے ارکان بھی موجود تھے ،وزیر خزانہ اسحٰق نے کہا ہے کہ ہمارا بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے، نئے مالی سال میں 2963 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائے گا اور تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کے لیے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجموعی وفاقی ریونیو 12ہزار 163ارب کا اس بجٹ میں پیش کیا گیا، ایف بی آر کی کلیکشن 9ہزار 200 اور نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 963 ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس میں اسٹیٹ بینک کا منافع 1113 ارب روپے ہے، صوبوں کو منتقلی کے بعد مجموعی وفاقی ریونیو 6 ہزار 887 ارب روپے ہے اگر ہم نے پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کر لیا اور اس کو شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور ساڑھے تین فیصد کی شرح نمو حاصل کر سکیں گے، آئی ایم ایف نے بھی ہماری شرح نمو کا یہی تخمینہ لگایا ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ شرح سود اب 21 فیصد پر ہے، ایک طرف قرضے دوگنے ہو گئے اور دوسری طرف شرح سود بھی ساڑھے 3 گنا بڑھ گیا ہے، اسی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی رقم اس سال ہمارے بجٹ میں سب سے زیادہ ہے، اللہ کرے یہ حقیقی نمبر پر آئے کیونکہ ہر ایک فیصد سے ہمیں 250 سے 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ ہم نے روایتی بجٹ سے ہٹ کر بنایا ہے، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، خاص طور پر یہی ہدف ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے ، مزید تباہی اور گراوٹ رک گئی ہے، ہمیں زرعی شعبے پر توجہ دینی ہے، سب سے جلدی فائدہ زرعی شعبے سے ملتا ہے، اس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے جس میں بے انتہا صلاحیت ہے ان کے لیے بھی ہم نے سہولت متعارف کرائی ہیں۔ ہمارے مقابلے میں کئی ملکوں کی اسی رقبے میں کاشت دوگنا ہے، مشرقی پنجاب میں اتنے ہی رقبے میں ہمارے پنجاب کی نسبت دوگنی کاشت ہوتی ہے، تو اس کی وجہ صرف بیج ہیں جس پر ہمیں خاص توجہ دینی ہو گی، ایسا کرنے سے ہمارا غذائی تحفظ کا مسئلہ حل ہو جائے گا ،درآمدات پر ڈیوٹی ختم کردی ہے۔ 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا اندازہ ہے وہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل سے حاصل ہوں گے، اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے، ریسٹورنٹس میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجموعی سبسڈےزمیں سے 900 ارب روپے بجلی کے شعبے کیلئے ہے، ۔ پوچھا جا رہا ہے کہ اتنا بڑا 2 ہزار 693ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائے گا تو میں بتا دوں کہ ایسا بالکل ہو سکتا ہے، اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ خبر چل رہی ہے کہ کھانے کے تیل پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے لیکن میں واضح کردوں کہ یہ ختم نہیں کیا گیا ہے۔، جو تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو ہم نے انڈسٹری سے کہا ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے ۔ ملک کے ایئرپورٹس کو آو¿ٹ سورس کرنے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر بات چیت جاری ہے، ہماری اس سلسلے میں آئی ایف سی سے بات چیت جاری ہے، اس سے ہمارے ایئرپورٹس پر سہولت اور سرگرمیاں کافی بہتر نظر آئیں گی، ہیتھرو ایئرپورت سمیت کئی ممالک کے ہوائی اڈے آو¿ٹ سورس ہیں، 12 ممالک سے کمپنیاں اس تمام مرحلے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور جولائی میں پہلے ایئرپورٹ کو آو¿ٹ سورس کرنے کے لیے بولی لگانے کا عمل شروع کیا جائے۔ اگر آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آ جاتا۔پیٹرول پر سبسڈی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے 800 سی سی سے زائد گاڑیوں پر 50 روپے فی لیٹر زائد چارج کرنے اور یہ پچاس روپے 800 سی سی سے کم گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو سبسڈی دینے پر کام کیا، تکنیکی طور پر اس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی اس پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور یہ معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائیں۔ جن ملکوں سے دوطرفہ تعلقات ہیں، ان سے لیے گئے قرضوں کا تعلق ہے تو اس میں طویل مدت تک کے لیے بات چیت ہو سکتی ہے اور ان کی ری شیڈولنگ پر بات کی جا سکتی ہے، بجٹ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہم اس بارے میں دوست ملکوں سے بات کریں گے،انہوں نے کہا کہ اگلے بجٹ میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے سب سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ، ایس ایم ایز کے لیے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، انہوں نے کہا کہ رات حیرانگی ہوئی خبر دیکھ کر کہ دودھ پر سیلز ٹیکس لگ گیا ہے، کلیئر کرنا چاہوں گا دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بجلی سبسڈی پر اتفاق ہو گیا ہے، قومی بچت اسکیم یکم جولائی سے لاگو ہو گی، وزےر خزانہ نے کہا کہ پاو¿ں پر کھڑے ہونے کے لیے پلان بی ہوتا ہے،ڈسکوز کی نجکاری پر کام کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا، پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائے گی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے نمبرز کچھ زیادہ رپورٹ ہوئے، حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ملک میں غذائی قلت میں کمی کے لیے حکومت اقدامات کرے گی، بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے۔کارپوریشن کے ملازمین کی پنشن کی ذمے داری وفاقی حکومت کی نہیں، جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا، وزیرِ خزانہ نے کہا کہ آپ ٹھیکیدار لائیں جو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر دے، ہم ایف بی آر کی جگہ ان کو ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ دے دیں گے، آپ ایسا ٹھیکیدار دیں ہم ایک سال کے لیے ایف بی آر کو چھٹی پر بھیج دیں گے۔ مشکل فیصلوں کے ذریعے معیشت کی گراوٹ کا عمل رک چکا ہے ، اسے دوبارہ دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے مالی سال 2024ءکیلئے پاکستان کی شرح نمو کا ہدف 2 فیصد لگایا ہے تاہم آئی ایم ایف ساڑھے 3 فیصد، بلومبرگ 4 فیصد اور فچ نے بھی 4 فیصد شرح نمو کا اندازہ لگایا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے 2 ہزار ارب سے زیادہ کا کسان پیکیج دیا تھا جس کے بہترین نتائج سامنے آئے، گندم کی وافر فصل حاصل ہوئی دیگر فصلوں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔و90 فیصد کا زر مبادلہ سمندر پار پاکستانی بھیج رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم لیوی 50 روپے لیٹر سے بڑھانے کا پلان نہیں، اگلے سال پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے، اس سال بھی 50 روپے لیٹر پورا سال لیوی نہیں رہی، اس میں بتدریج اضافہ کیا گیا تھا۔