• news

زندگی سے ناانصافیاں

ایک دیرینہ دوست طارق مشیر صدیقی کی وال پر ایک ویڈیو کچھ ایسی دل کو لگی کہ اس کو دیکھنے کے بعد میں اس پر لکھے بغیر نہ رہ سکا. مذکورہ ویڈیو میں ایک خوبرو خاتون نے خالص پنجابی زبان میں پوری انسانی زندگی کا نقشہ بہت عمدہ اور دلچسپ پیرائے میں کھینچا ہے۔ اثنائے گفتگو میں جو کچھ اس خاتون نے سادہ الفاظ میں کہا وہ غور طلب بھی ہے اور فکر انگیز بھی. آخری فقرے کے علاوہ باقی سب گفتگو عام فہم اردو زبان میں پیش خدمت ہے۔
"باہر جانا ہے… باہر چلے گئے
سیٹ ہونا ہے…... سیٹ ہو گئے
قرضہ اتارنا ہے… قرضہ اتار دیا
گھر بنانا ہے….. گھر بھی بن گیا
والدین کو بلانا ہے…….. وہ بھی آ گئے
اور پیسہ کمانا ہے…... وہ بھی کما لیا۔
پراپرٹی اکٹھی کرنی ہے…... وہ بھی ہو گئی
اب بڑھاپا آ گیا ہے……. اب کیسے زندگی انجوائے کریں؟؟
کس طرح جوانی کے دن واپس لے کر آئیں؟؟
نہ آنکھوں کو نظر آتا ہے….. نہ بدن پہلے کی طرح جوان رہا ہے… نہ ٹانگیں چلتی ہیں
اب مر جانا ہے……. مر بھی گئے۔
زندگی آوازیں دیتی رہی، چیختی رہی اور کہتی رہی، "چندریا مینوں تاں جی لیندا"
میری کم علمی کہئیے کہ آخری فقرے میں مجھے لفظ 'چندریا' کا متبادل اردو لفظ نہیں مل سکا. اِس لئے پوری سطر پنجابی زبان میں لکھنی پڑی۔ دراصل یہی فقرہ ساری گفتگو کا ماخذ و منبع ہے. ویسے بھی ہمارے سِیماب فِطرَت معاشرے میں چندرا، شوہدہ، بونگا، لائی لگ، ہوڑ مت اور چول جیسے الفاظ اپنے اندر ایک خاص معنویت اور سحر رکھتے ہیں. اِن کے ہم پلہ الفاظ کسی اور زبان میں مل بھی جائیں تو بھی اِن کی مسلمہ افادیت کو گہنا نہیں سکتے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی "چندریا مینوں تاں جی لیندا" کی... زندگی واقعی چیختی ہے، چلاتی ہے، دہائی دیتی ہے، فریاد کرتی ہے، جھنجھوڑتی ہے اور منتیں کرتی ہے کہ میں ہی تیرا سب کچھ ہوں. دو رنگی چھوڑ کر مجھ سے دل تو لگا، محبت تو کر، صدقِ دل سے ناطہ تو جوڑ کر دیکھ، میں تجھے فضاو¿ں میں اڑاو¿ں گی، سرآنکھوں پر بٹھاو¿ں گی، اوجِ ثریا پر لے جاو¿ں گی اور تیرے حسیں خوابوں کی تعبیر بنوں گی. مگر انسان اس وقت سنی ان سنی کر دیتا ہے. جب زندگی کی باتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں تو بڑھاپا آ چکا ہوتا ہے. پھر وہ اپنی قسمت کو کوستا ہے، زمانے کو برا بھلا کہتا ہے اور کبھی اپنی عقلِ کم فہم کا ماتم کرتا نظر آتا ہے. انسان کی سرشت میں ناشکری کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے. ہمیشہ زندگی سے گلہ کرتا ہے، زندگی کا شکوہ کبھی نہیں سنتا۔
زندگی کے بارے میں مختلف شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے اپنے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
 ورڈزوتھ، شیکسپیئر، پی بی شیلے، ایس ٹی کالریج، جارج گارڈن ، بائرن وغیرہ نے خدا، فطرت، زندگی، محبت اور دیگر موضوعات پر الگ الگ شاعری کی ہے۔ انسان جب اِن شعرائے کرام کی شاعری پڑھ لیتا ہے تو وہ اپنی سوچ میں مثبت اور منفرد قسم کی تبدیلیاں محسوس کرنے لگ جاتا ہے. جان کیٹس نے انگریزی زبان میں اوڈز ( odes) لکھے. اوڈز (odes) دراصل انگریزی ادب کی ایک صنف ہے۔ پچیس سال کی عمر میں ٹی بی کے مرض سے ملک عدم سدھارنے والا، غیر شادی شدہ، جان کیٹس لکھے گئے اوڈز کی وجہ سے اپنی زندگی کو امر کر گیا۔ اس کی زندگی اس سے کبھی گلہ نہ کر سکی۔
اردو شاعری میں زندگی کے بارے میں الگ سے تو شاید اتنا نہیں لکھا گیا مگر غزلوں میں زندگی کے بارے میں بہت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والے اشعار پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں. غزل کو باقی اصناف پر وہی برتری اور فوقیت حاصل ہے جو گورے کو کالے پر، زورآور کو زیردست پر اور ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کو نان اسٹیبلشمنٹ پر ہے. غزل کے حسن کو نکھارنے میں گائیگی نے بڑے کمال سے شاعروں کا ہاتھ بٹایا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے گائیگی آگے نکل گئی ہے اور شاعر پیچھے رہ گئے ہیں۔دنیا کے چند دانشوروں کے زندگی کے بارے میں اقوال بھی خوب صورتی میں اپنا اعلٰی مقام رکھتے ہیں… چند اقوال ملاحظہ فرمائیں
رالف ڈبلیو ایمرسن کا قول ہے "زندگی کی لمبائی نہیں گہرائی دیکھو" ولیم والس کہتے ہیں، "ہر کوئی مر جاتا ہے مگر درحقیقت ہر کوئی جیتا نہیں"، شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں، "جدوجہد میں زندگی کا راز مضمر ہے". شالوم علیخم نے زندگی کو یوں بیان کیا ہے، "زندگی دانا کیلئے خواب، نادان کیلئے کھیل، امیر کےلئے طربیہ اور غریب کےلئے المیہ ہے۔ 
آئن سٹائن کا مقولہ ہے، ”زندگی بائیسکل کی مانند ہے جس میں آپ نے توازن برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا ہے“، ایک قول یہ بھی ہے، "زندگی کی خوبی یہ ہے کہ جب ہم روٹھ جائیں تو کوئی ہمیں منانے والا ہو۔“
ہر انسان کی زن…
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن