• news

اسحاق ڈار کا 7 بار بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ 

لگتا ہے مسلم لیگ نون کی حکومت اور اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پر اگر مخالفین ”چولی کے نیچے کیا ہے، چنری کے پیچھے کیا ہے“ کہتے ہوئے مسلم لیگ نون کے حکمرانوں اور اسحاق ڈار کا ناطقہ بند کیے رہتے ہیں مگر کیامجال ہے جو اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے میں کوئی رکاوٹ آتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مفتاح اسماعیل جیسا مسلم لیگ نون کا دوسرے نمبر پر وزارت خزانہ کے لیے فیورٹ امیدوار آج کل اپنی قیادت سے ناراض ہیں کیونکہ موجودہ حکمرانوں نے آنے کے بعد پہلے تو انہیں وزارت خزانہ دی پھر جیسے ہی موقع ملا، انہوں نے برآمدی اسحاق ڈار کو اس سیٹ پر بٹھا دیا۔ اب مفتاح اسماعیل ملک کی اقتصادی صورتحال اور معاشی حالات پر جو منفی تبصرے کر رہے ہیں وہ ان کے دکھی دل کی صدا ہے۔ وہ ابھی تک خود کو اسحاق ڈار سے بہتر ماہر اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں۔ مگر جہاں رشتہ داری درمیان میں آ جائے وہاں میرٹ کا قتل عام تو ہوتا ہی ہے۔ 
اب اسحاق ڈار نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں اور پرانے ادوار کے وزیر خزانہ بھی رہے ہیں۔ لگتا ہے انہوں نے شریف فیملی پر اپنی حساب کتاب میں مہارت کی دھاک جمائی ہوئی ہے۔ جبھی تو جب بھی مسلم لیگ (نون) حکومت ملتی ہے وہ جھٹ سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیتی ہے۔ اب یہ ریکارڈ بھی جو انہوں نے 7 مرتبہ بجٹ پیش کرنے کا بنایا ہے وہ شاید ہی کوئی اور بنا سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ بجٹ کیسا رہا۔ اس سے غریب عوام کو کیا فائدہ ملا۔ اس بجٹ کو دیکھ لیں وہی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔ غریبوں کے لیے نہ مہنگائی کم ہوئی نہ ان کو کوئی ریلیف دیا گیا۔ جب 22 کروڑ عوام کوکوئی رعایت نہیں ملی تو کیا فائدہ ایسے بجٹ کا۔ بھوک ننگ بیماریاں، بے سروسامانی آج بھی ملک بھر میں ناچتے ہوئے اس بجٹ کا مذاق ا±ڑا رہی ہے اور اشرافیہ کے موج میلے چل رہے ہیں۔
٭٭٭٭
امریکہ اور برطانیہ اس لیے فوج کے حمایتی ہیں کہ وہ یوکرائن کی مدد کر رہی ہے : عمران 
ہوش و حواس سے بیگانہ ہو یا عقل و خرد سے عاری کوئی بھی محب وطن شخص ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتا جس سے اس کے ملک کو نقصان پہنچے۔ کہتے ہیں ماں اگر پاگل بھی ہو تو بھی اپنے بچے کو پہچانتی ہے اسے نقصان نہیں پہنچاتی۔ پی ٹی آئی والے تو عمران خان کو مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ کیا مرشد ایسے ہوتے ہیں ، ایسی باتیں تو ملنگ کرتے ہیں یا مجذوب۔ صاحب ارشاد لوگ ایسی بونگیاں نہیں مارتے۔ یہ تو کھلم کھلا روس کے ساتھ ملک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش ہے۔ عالمی سطح پر مغربی طاقتیں روس کو یک و تنہاکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کیا وہ بھول رہی ہیں کہ اگر روس اور یوکرائن میں لڑائی دو ملکوں کاتنازعہ ہے تو پھر یہ عالمی صف بندی کیوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر مسئلہ کشمیر پر بھی ایک ایسی ہی پالیسی بنائی جائے اور بھارت کے خلاف بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی پر عالمی ایکشن لیا جائے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اسوقت عالمی سطح پر خدا خدا کر کے روس سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ توانائی کے شعبہ میں پاکستان روس سے تیل اور گیس کے حصول میں کامیاب ہوا ہے۔ 
خدا کرے بند پڑی سٹیل ملز میں بھی روس کے تعاون سے جان پڑے۔ اب خان صاحب کو دیکھیں کیسے الزامات لگا کر روس کو بدظن کر رہے ہیں کیا ایسا کرنا غلط نہیں۔ عالم کیف و سرود میں موصوف کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ اس لیے پاکستانی فوج کی حمایت کررہے ہیں کہ پاکستانی فوج یوکرائن کی مدد کر رہی ہے۔ یہ سراسر روس کو بھڑکانے والی بات ہے کہ ہماری فوج روس کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہی ہے۔ اس قسم کے احمقانہ بیانات سے پاکستان اور روس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا ایک سیاستدان ایسی بات کر سکتا ہے جو ملک کے مفاد کے خلاف ہو۔ پی ٹی آئی والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا مرشد خود کن کا چیلہ ہے۔ کن کے اشاروں پر چل رہا ہے۔ ایسے الزامات دشمن لگاتے ہیں دوست نہیں پھر کہتے ہیں ہم سے زیادتی ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
سمندری طوفان ہائپر جوائے پاکستان کی طرف بڑھنے لگا 
پہلے کیا ہم کم طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ اب یہ نیا طوفان ہمارے ساحلوں سے ٹکرانے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ خدا کرے یہ سمندری طوفان جو اس وقت کراچی سے ساڑھے گیارہ سو میل کی دوری پر ہے، پل پل میں کسی معشوق کی طرح موڈ بدل رہا ہے۔ اس وقت اس کا رخ شمال مغرب کی طرف ہے جس کا کراچی میں بھی اثر ہو سکتا ہے۔ اسوقت بھی کراچی میں تیز سمندری لہریں ساحل سے ٹکرا رہی ہیں۔ طوفانی ہواﺅں کے ساتھ بارشوں کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں کراچی والے پریشان ہیں کیوں کہ ہنگامی صورتحال میں سب سے پہلے بجلی داغ مفارقت دے جاتی تھی۔ بارش کی صورت میں 
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں 
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں 
والی صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔ اب اگر تیز ہوائیں بھی ان بلاﺅں کے ساتھ مل جائے تو پھر ٹین کی چھتیں، بڑے بڑے دیوہیکل سائن بورڈز، درخت ، کھمبے تک روئی کے گالوں کی طر اِدھر ا±دھر ا±ڑ کر نقصان میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی لیے دعا ہے یہ طوفان دور سے ہی سلامی دیتا ہوا گزر جائے۔ حکومت نے ماہی گیروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ طوفانی الرٹ جاری ہونے کے بعد سمندر میں جانے سے پرہیز کریں مگر وہ مانتے کب ہیں۔ دوسروں کو تو چھوڑیں ساحل سمندر پر سیر کے لیے آنے والوں کو دیکھ لیں۔ بار بار منع کرنے کے باوجود وہ سرکش لہروں کی موجودگی میں بھی سمندر میں نہانے سے باز نہیں آتے اور کئی افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے طوفانی موسم اور ہنگامی صورتحال میں حفاظتی اقدامات پر عمل کر کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سی ایس ایس کا امتحان 2 فیصد امیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکے 
اس سے اندازہ لگا لیں ہماری تعلیمی تنزلی کا۔ ایک طرف اشتہارات میں ملک بھر میں اعلیٰ نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ بڑے بڑے پ±رکشش اشتہارات ان نجی تعلیمی اداروں کے معیار کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں گویا یہ کیمبرج اور آکسفورڈ کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ لاکھوں والدین اربوں روپے بچوں کی تعلیم کے نام پر ان اونچی دکان پھیکے پکوان پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ سی ایس ایس مقابلے کا اعلیٰ ترین امتحان ہے۔ لاکھوں طالب علموں کے دلوں میں اس شرکت کی تمنا مچلتی ہے مگر افسوس بھاری فیسیں لے کر تعلیم کے نام پر دھوکہ دینے والے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر باہر آنے والے بچے بھی اس امتحان میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وجہ وہی رٹا سسٹم اور پاس کر کے جان چھڑانے والی پالیسی یا فیل کر کے ایک دو سمیسٹر زیادہ پڑھا کر فیسیں بٹورنے اور پیسے کمانےوالا منفی رجحان جو ہر نجی تعلیمی ادارے میں موجود ہے۔ 2022ءمیں 20262 امیدواروں نے حصہ لیا تحریری امتحان میں صرف 393 امیدوار کامیاب ہوئے جن میں 223 مرد ار 151 خواتین ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کیسے طالب علم تیار ہوتے ہیں۔ شرح کامیابی دیکھ کر رونا آتا ہے جو صرف 1.85 فیصد ہے۔ محکمہ تعلیم اور حکوت توجہ دے کہ ہم تعلیمی میدان میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔ یہ تعلیمی پستی کا سفر کب اور کیسے ختم ہو گا۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ یہ ہمارے آنے والے کل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس پر کان دھرنا ہو گا۔ اعلیٰ قابل ذہین افراد کے ملک سے باہر جانے کی وجوہات کو ختم کرنا ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن